کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 152
موت تک کے لیے تاخیر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ زندگی بہت ہی مختصر ہے، جیسے اذان اور نماز کا درمیانی وقفہ۔‘‘ آخرت کا ایک دن دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔ دنیا کے اس مختصر سے وقت میں ہم نے آخرت کی ابدی زندگی کو سنوارنے ، اور اس میں فوزوفلاحپانے کا سامان کرنا ہے؛ جیسے اذان اور اقامت کے دوران نماز کے لیے تیاری کی جاتی ہے : کر لے جو کرنا ہے ، آخر موت ہے ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے یاد رہے کہ ! دنیا عارضی ٹھکانہ ہے ، یہاں سے باشاہ بھی وہ دو گز کفن لے کر جاتا ہے ، گدا وفقیر کو بھی اللہ وہ کفن نصیب کردیتے ہیں ۔ شاہ و گدا سارے اس مٹی کے نیچے چلے جاتے ہیں ؛ پیچھے رہ جانے والے اہل وعیال ومال قبر تک ساتھ جائیں گے ؛ واپس آکر چار دن سوگ منائیں گے، اگر اچھے عمل کیے ہوں گے ، لوگ انہیں یاد کرکے تعریف کریں گے، جو اللہ کے ہاں کام آئے گی؛اور اگر نہیں توکچھ لوگ برے اعمال کی وجہ سے گالیاں اوربد دعائیں دیں گے جو اللہ کے ہاں زیادہ پکڑ کا سبب بن جائیں گی۔ مگر نیک اعمال ہر لمحہ دنیا اور آخرت میں انسان کا ساتھ دیں گے؛ اور اللہ کے فضل وکرم سے ہر مشکل سے چھٹکارے کا سبب بن جائیں گے۔ لمحۂ عبرت: گرمی سے بھاگنے والے بھول نہ جائیں کہ : ’’جہنم کی گرمی اور سردی اتنی سخت ہے کہ جہنم نے خود بارگاہِ الٰہی میں اس گرمی اور سردی کی شکایت کی ؛ اللہ نے اسے سال بھر میں دو سانس لینے کی اجازت دی۔‘‘ [1] ایک سانس ٹھنڈا؛ جس میں برف باری بھی آتی ہے، لوگوں کے ہاتھ پاؤں شل ہوجاتے ہیں ، اور جانیں چلی جاتی ہیں ۔ پس جہنم کی ٹھنڈی وادیوں کا کیا حال ہوگا ؟ دوسرا :گرم سانس !یہ
[1] صحیح بخاری ، ح : ۵۱۲۔