کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 151
﴿ مَّا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ﴾(الاحزاب:۴) ’’اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں بنائے( کہ نافرمانی اوراطاعت ایک ہی لمحہ میں ممکن ہو)۔‘‘ ٭ انسان کے لیے ہدایت وگمراہی، خوش بختی و بد بختی، شکر و کفر(ناشکری) کی راہیں واضح ہیں جن پر چلنے کا اسے اختیار حاصل ہے: ﴿ إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ‎﴿٣﴾ (الدہر:۳) ’’بے شک ہم نے اس کو راہیں دکھادی ہیں ، پس ان میں یا تو شکر گزار ہیں یا ناشکرے۔‘‘ ٭ دنیا کی یہ گرمی جس سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ عارضی ہے۔ ہاں یہ گرمی عارضی ہے ، اور اس کا ازالہ بھی ممکن ہے۔ ہم پنکھا، ائیر کنڈیشنر،روم کولر ، ٹھنڈے مشروب استعمال کرسکتے ہیں ؛ جو اس گرمی کو ختم کردیں ؛ مگر بھول نہ جائیں اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے ملنے والی جہنم کی گرمی بہت سخت، اور بہت لمبی ہے ، جس کو ختم کرنا بھی اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ممکن نہیں ۔ اور اس دنیا سے کب اور کیسے چلے جائیں گے ، کسی کو کچھ خبر نہیں ۔ دنیا کی زندگی کی اتنی ہی حقیقت ہے کہ : آتے ہوئے اذاں ہوئی اور جاتے ہوئے نماز اتنے قلیل وقت میں آئے اور چل دیے اسی حقیقت کو ایک عربی شاعر نے بڑے خوب انداز میں بیان کیا ہے: آذَانُ الْمَرْئِ حِیْنَ الطِّفْلُ یَأْتِيْ وَتَأْخِیْرُ الْـصَّـلاَۃِ إِلَی الْـمَمَاتِ دَلِیْلٌ أَنَّہُ مَحْیَاہٗ یَسِیْرٌ کَمَابَیْنَ اْلآذَانِ إِلَی الْصَلَاۃِ ’’ بچے کے پیدا ہونے پر اس کے کان میں کسی کا اذان دینا ، اور پھر نماز میں