کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 147
تیرے رب کا دیا ہوا رزق بہت بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ ‘‘ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک مردہ بکری پر ہوا ، جس کی ٹانگیں اوپر کی طرف اٹھی ہوئی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أَتَرَوْنَ ھَذِہٖ ھَیِّنَۃٌ عَلَی صَاحِبِھَا ،فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ ! لَلْدُّنْیَا أَھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ھَذِہٖ عَلَی صَاحِبِھَا ، وَلَوْکِانَتْ تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَّا سَقَی مِنْھَا کَافِراً شَرَبَۃَ مَائٍ)) [1] ’’کیا تم دیکھتے ہو کہ یہ بکری اپنے مالک کے لیے کتنی بے وقعت ہے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! دنیا اس بکری کے اپنے مالک کے لیے بے وقعت ہونے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے لیے بے وقعت ہے ، اور اگر دنیاکی قدر اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی تک نہ ملتا۔‘‘ ایک اور مقام پر دنیا کی بے وقعتی بیان کرتے ہوئے فرمایا : ((اَلْدُّنْیَا مَلْعُوْنَۃٌ وَمَلْعُوْنٌ مَا فِیْھَا،إِلاَّ ذِکْرُ اللّٰہِ، وَمَا وَالاَہٗ ، وَعَالِماً وَّمُتَعَلِّماً)) [2] ’’دنیا ساری کی ساری ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے ، مگر اللہ کا ذکر ، اور جوکوئی اس سے دوستی رکھے، اور عالم اور متعلّم۔‘‘ ایک موقع پر اس دنیا میں اپنی زندگی کے ساتھ انسانی کردار کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْ، فَبَائِعٌ نَفْسَہٗ : فَمُعْتِقُھَا أَوْ مُوبِقُھَا)) [3]
[1] سنن ابن ماجۃ ،باب : مثل الدنیا ،۴۱۱۰۔ المستدرک للحاکم ،کتاب الرقاق ، ح: ۷۸۴۷۔ صحیح/ الجامع الصغیر۔ [2] سنن الترمذي ، باب: ماجاء في ہوان الدنیا علی اللہ عزو جل ، ح: ۲۳۲۲۔ حسن ،ابن ماجۃ ، باب: مثل الدنیا ، ح: ۴۱۱۲۔ [3] مسلم؛ باب فضل الوضوء ،ح: ۲۲۳۔سنن الترمذي ،برقم ۳۵۱۷۔