کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 145
٭ علامہ ابن رجب نے ’’ منتقی الأخبار‘‘ کے مصنف مجد الدین ابن تیمیہ (شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے دادا ) کے متعلق لکھا ہے:’’ وہ عمر عزیزکا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونے دیتے تھے؛ زندگی کی ایک ایک گھڑی کو کسی مفید کام میں لگانے کا اس قدر اہتمام تھا کہ کبھی تقاضے اور ضرورت سے جاتے تو اپنے کسی شاگرد سے کہتے تم کتاب بلند آواز سے پڑھو تاکہ میں بھی سن سکوں ، اور وقت ضائع نہ ہو۔‘‘[1] ابو الوفا ابن عقیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ علماء اور عقلاء اس بات پر متفق ہیں کہ انسان کی سب سے اہم پونجی جس کو بچا بچا کر استعمال کرنا چاہیے، وقت ہے۔ لمحات زندگی فراہم کرنے والا وقت در حقیقت سب سے بڑی غنیمت ہے۔ اس لیے اس کو بچا بچا کر رکھنا چاہیے کہ انسان کے ذمہ کام بہت ہیں ، اور وقت بہت جلد غائب ہونے والی چیز ہے۔‘‘[2] مشہور فلاسفر ڈانٹے نے کہا ہے : ’’ ایسے سوچیں کہ یہ دن دوبارہ کبھی نہیں آئے گا، زندگی نہایت تیزی سے گزر رہی ہے،ہم اس میں ۱۹ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے دوڑ رہے ہیں ، آج ہمارا قیمتی ترین دن ہے ، یقینی کامیابی کا دن ہے ۔‘‘ قدیم رومن لوگوں کا قول ہے کہ آج کو ہاتھ سے نہ جانے دو؛ آج کا پورا استعمال کرو۔‘‘ آپ سوچ لیں کہ آپ بنیادی طور پر کچھ بھی نہیں ،نہ ہی بدقسمت اور نہ ہی خوش قسمت ۔ اور یہ دیکھیں کہ آپ کا وقت اگر سعادت مندی کے کاموں میں لگ رہا ہے تو آپ خوش قسمت ہیں ، اگر ایسا نہیں تو … پھر ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر خوش قسمت بننے کے لیے اپنے وقت کو استعمال کرنا شروع کردیں ۔ گراؤنڈ بڑا وسیع ہے اور گیند آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ ****
[1] طبقات حنابلہ ۲/۲۴۹۔ [2] بحوالہ :متاع وقت وکاروان علم ۹۴۔