کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 144
٭ ڈاکٹر خالداحدب کہتے ہیں :’’ حقیقت میں عقل فضول چیزیں ترک کرنے سے مکمل ہوتی ہے ؛ اور جب عقل مکمل ہوتی ہے تب وقت سے صحیح فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے ، اور انسان اپنے شرف ومنزلت کا صحیح اندازہ لگا سکتا ہے۔ آپ جتنی بھی کوشش کریں گے کسی صاحبِ فضل آدمی کو کھانے پینے ،لباس وآرائش ، ملاقاتوں اور باتوں میں نہیں پائیں گے ؛ کیونکہ وہ اپنے وقت سے فائدہ حاصل کرنے میں دوسروں پر سبقت حاصل کررہا ہوتا ہے۔ اور جس نے وقت کی قیمت کو پہچان لیے وہ اپنے تمام امور میں میانہ روی اختیار کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بہت زیادہ کھانے سے نیند زیادہ آتی ہے ، اور پیٹ بھرجانے سے عقل اندھا ہوجاتاہے،اور بدن کمزور۔ پس معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنے عقل اور دل کو فضول کاموں سے آزاد کرانا چاہتے ہیں ، اور یہی ہمارا ہدف ہے۔‘‘[1] ٭ ابن الحسن عباسی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ یہاں نہ اپنی مرضی سے آمد ہے ، اور نہ اپنی خواہش سے جانے کا سفر ؛آنے والے کو حیات لائی ، آیا، قضا جب چاہے گی ،لے چلے گی،پھر کہاں اپنی مرضی سے آنااور جانا ہوا: لائی حیات آئے ، قضا لے چلی چلے نہ اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے اس راہ کے مسافر کے اختیار میں اگر کچھ ہے تو وہ آنے اور جانے کے درمیان عمر فانی کے ان لمحات کا مرحلہ ہے جس کا ظرف تعمیر وتخریب، آبادی و ویرانی اور خار وگل ہر دو کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ؛ اب یہ ہر ایک کا اختیاری معاملہ ہے کہ وہ تعمیری پہلو کا انتخاب کرکے اپنے لیے فلاح وکامیابی اور تعمیر وآبادی کا سامان کرتا ہے،یا وہ اس کے سیم وتھور کے خار زار میں قدم رکھ کر خود اپنی بربادی اور ویرانی کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ اول الذکر سعادت مندوں کا راستہ ہے ، اور مؤخر الذکر محروم نصیب لوگوں کا راستہ ہے۔ ‘‘[2]
[1] سوانح وتأملات فی قیمۃ الزمن ص۶۷ [2] متاع وقت وکاروان علم ،ص:۴۴