کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 143
گزرے، تاکہ کل قیامت میں زندگی کا دفینہ خالی پاکراشک ندامت نہ بہانے پڑیں ،ایک ایک لمحہ کا حساب کریں کہ کہاں صرف ہورہا ہے، اور اس کوشش میں رہیں کہ ہر گھڑی کسی مفید کام میں صرف ہو،بیکار زندگی گزارنے سے بچیں ،اور کام کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ آگے چل کر آپ وہ کچھ پاسکیں جو آپ کے لیے باعث مسرت ہو۔‘‘[1] حضرت شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ اپنے ایک مکتوب میں کسی عزیز کو لکھتے ہیں : ’’ میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ میں چوبیس گھنٹے میں صرف ایک بار کھاتا ہوں کیونکہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ‘‘[2] انہی کا ایک واقعہ ابن الحسن عباسی نے نقل کیا ہے کہ: وہ اپنا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : ’’ بسا اوقات رات دن میں ڈھائی تین گھنٹے سے زیادہ سونا نصیب نہیں ہوتاتھا، اور بلا مبالغہ کئی مرتبہ بلکہ بہت مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ روٹی کھانا یاد نہ رہی، عصر کے وقت جب ضعف معلوم ہوتا تھا، تو اس وقت یاد آتا کہ دوپہر کی روٹی نہیں کھائی ، اور رات کو کھانے کا معمول تو اس سے پہلے ہی چھوٹ گیاتھا ،تیس پینتیس گھنٹے روٹی کھائے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔ ‘‘[3] شیکسپیئر کہتا ہے :’’ میں نے وقت برباد کیا ، اور اب وقت مجھے برباد کررہا ہے ( مجھ سے انتقام لے رہا ہے )۔‘‘ ", NOW THE TIME IS WASTING ME IME HAVE WASTED THE T I " بس یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے وقت کی قدر کو جانا، اور اس سے فوائد حاصل کرنے کے لیے کمر کس لی، اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کے اوقات میں برکت اور ان کے مبارک ناموں اور کارناموں کو زندہ جاوید کردیا؛اور یہی اللہ کی سنت ہے ،اللہ کبھی کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے۔
[1] متاع وقت وکاروان علم؍ ۵۶۔ [2] اس کا حوالہ بہار کے ڈاکٹروسیم صاحب نے دیا ہے ۔ [3] متاع وقت وکاروان علم ۳۶۔