کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 142
جارہے تھے ، اسٹیشن پر جوتی گم ہوگئی۔ ایک عرصہ تک ننگے پاؤں رہے۔ دوسری جوتی کا بندو بست نہ ہوسکا۔[1] ٭ اور موجودہ دور کے عظیم الشان محدث اور عالم ربانی علامہ البانی رحمہ اللہ گھڑی ساز تھے۔ ان روایات وحکایات کو بیان کرنے کا مقصد صرف اور صرف ہمت کا بڑھانا؛ حوصلہ دینا اورحوصلوں کو بر انگیختہ کرنا ہے ؛اس لیے کہ کوئی بھی کام بغیر مشقت اور محنت کے انجام نہیں پاتا۔ اور سفر کیے بغیر کبھی منزلت نہیں ملتی۔ اگر ہم میں بھی کوئی کسی منزل کا خواہاں ہے تو اسے ایسے ہی محنت کرنا ہوگی جیسے ہمارے اکابر کا شیوہ رہا ہے ، بقول اقبال : کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں اور بقول حالی: بہت ہم میں اور تم میں جوہر ہیں مخفی خبر کچھ نہ ہم کو نہ تم کو ہے جن کی تو ہو جائیں گے مل کے مٹی میں مٹی اگر جیتے جی کچھ نہ ان کی خبر لی یہ جوہر ہیں ہم میں امانت خدا کی مبادا تلف ہو ودیعت خدا کی مشاہیر زمانہ اور وقت: ابن جوزی نے اپنے لخت جگر کے نام ایک نصیحت نامہ ’’لفتۃ الکبد فی نصیحۃ الولد ‘‘ کے نام سے لکھا ہے ، جس میں وقت کے اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ بیٹے ! زندگی چند گھنٹوں ،اور گھنٹے چند گھڑیوں سے عبارت ہیں ، زندگی کا ہر سانس گنجینۂ الٰہی ہے ، ایک ایک سانس کی قدر کیجیے کہ کہیں بغیر فائدہ کے نہ
[1] العلم والعلماء ۳۸۔