کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 141
رہے۔ تنگ دستی کی یہ حالت تھی کہ ایک بار تو اپنے کپڑے تک بیچ کھائے۔[1] ٭ امام طبرانی رحمہ اللہ نے تیس برس تک صرف بوریے پر سو کر گزارا کیا ، اور اس بلند مقام تک پہنچے جس کا اعتراف دنیاکرتی ہے۔[2] ٭ امام ابو بکر رحمہ اللہ سکاف موچی تھے، شمس الائمہ سرخسی حلوائی تھے؛ابن سیرین بزاز تھے ایوب سختیانی چرم کے سوداگر تھے۔ مالک بن دینارکاغذ فروش تھے۔[3] ٭ حضرت عامر بن قیس رحمہ اللہ ایک زاہد تابعی تھے۔ ایک شخص نے ان سے کہا :’’ آؤ بیٹھ کر باتیں کریں ۔‘‘ انہوں نے جواب دیا : ’’ تو پھر سورج کو بھی ٹھہرا لو۔‘‘ یعنی زمانہ توہمیشہ متحرک رہتا ہے ، اور گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا ہے، اس لیے ہمیں اپنے کام سے غرض رکھنی چاہیے۔ ٭ شیخ محمد بن سلام البیکندی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے شیوخ میں سے تھے۔ ایک دفعہ ان کا قلم ٹوٹ گیا ؛ تو انہوں نے صدالگائی : مجھ کو نیا قلم ایک دینار میں کون دیتا ہے ؟۔ لوگوں نے ان پر قلموں کی بارش کردی ۔ یہ ان کی دریا دلی کا حال تھا کہ وہ ایک قلم کو ایک دینار (اس دور کی خطیر رقم ) کے بدلے خریدلیتے تاکہ لکھتے لکھتے ان کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو، اور ان کے خیالات کا تسلسل جاری رہے ۔ ٭ فتح بن خاقان عباسی خلیفہ المتوکل کے وزیر تھے ۔ وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے۔ اور جب انہیں سرکاری کاموں سے ذرا فرصت ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے لگ جاتے ۔ ٭ فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ یتیم تھے۔ چودہ سال کی عمر میں علم حاصل کرنا شروع کیا تو اپنا خرچہ خود ہی چلانا پڑتا تھا جس کے لیے آپ رفو گری کا کام کرتے تھے۔ ایک بار بڑے میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے حصول علم کے لیے
[1] العلم والعلماء :۳۹۔ [2] تذکرۃ الحفاظ ۳؍ ۱۲۸۔ [3] العلم والعلماء ۴۱-۴۲۔