کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 140
کئی ایک جلدوں پر مشتمل اور انتہائی اہم موضوعات کے متعلق ہیں ۔ ٭ المنحل الصافی میں ہے : علامہ زاہد البخاری نے ایک سو جلد پر مشتمل ایک تفسیر لکھی ہے۔ ٭ امام ابو یوسف عبدالسلام قزوینی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’ حدائق ذات بھجۃ‘‘ تین سو جلدوں میں لکھی ہے۔ ٭ ابو بکر بن العربی رحمہ اللہ نے ’’انوا رالفجر ‘‘کے نام سے ایک تفسیر اسی ہزار اوراق پر مشتمل لکھی ہے جس کے دو سو مجلد بنتے ہیں ۔ ٭ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تین سو مجلد کی تفسیر لکھی جو کہ اب نایاب ہے۔ ٭ علامہ ابو حامداسفرائنی رحمہ اللہ مشہور عالم اور مناظر تھے، انتہائی فقر وفاقہ میں ابتدائی زندگی گزری۔ ایک گھر کی پاسبانی کرتے ، اور جو تیل پاسبانوں کو ملتا تھا ، اس کو جلا کر مطالعہ کرتے تھے ، اور آخر کار نتیجہ یہ نکلا کہ سات سو فقیہ ان کی مجلس درس میں سبق پڑھتے تھے۔ ٭ حجاج بن شاعر خلیفہ مامون کے دور میں ترجمہ کے کام پر مامور تھے۔ ان کا تعلیمی زمانہ اتنا ناگوار اور خشک گزرا ہے کہ خود فرماتے ہیں کہ سو روز تک متواتر ایک روٹی دجلہ کے پانی سے بھگو لاتا اور پیٹ بھرتا۔ ‘‘[1] ٭ علامہ عبد اللہ بن سادہ اپنے زمانہ کے مشہور ذی علم بزرگ تھے۔ اشبیلیہ میں جلد سازی کرکے گزارا کرتے تھے۔ ٭ حافظ محمد بن حارث رحمہ اللہ جن کی فن ِ تاریخ میں کئی کتابیں ہیں ،وہ اس قدر مفلس تھے کہ دکان میں تیل فروخت کرکے گزر بسر کرتے تھے۔[2] ٭ فن حدیث کے عالی المرتبت امام ابو حاتم رازی چودہ برس تک حصول علم کی خاطر بصرہ میں
[1] العلم والعلماء ؍ جھنڈا نگری ۳۵۔ [2] تذکرۃ الحفاظ ۳؍۲۰۹۔