کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 139
شروع ہوئی تو گاندھی جی نے سورت اخلاص کے متعلق کچھ سوال کیا ؛ شاہ صاحب اس کے جواب میں کافی تفصیل میں چلے گئے۔ میں نے یاد دلایا، شاہ جی ہم فلاں کام کی غرض سے آئے ہیں ، وقت پورا ہوگیا توگاندھی جی چلے جائیں گے۔ شاہ صاحب فرمانے لگے : بابا کوئی بات نہیں گاندھی جی اپنے آدمی ہیں ، ہمارا خیال رکھیں گے ؛ اور بے تکلفی کی باتیں شروع کردیں ۔ جب وقت پورا ہوگیا ، گاندھی جی اٹھے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے عبادت خانے میں چلے گئے ، اور ہم بیٹھے دیکھتے ہی رہ گئے۔‘‘ دو چار سے دنیا واقف ہے گمنام نہ جانے کتنے ہیں : یہ تو چند علما؛ اصحاب ِ فکر اور شعرا کا تذکرہ تھا ، تفصیل سے بیان کا یہ موقع نہیں ۔ اگر مختصراً ان کے علاوہ دیگر علماء کی حیات پر نظر ڈالیں گے تو ایک عالم عجائب ملے گا ، اپنی ہمتوں اور ضیاع وقت کو دیکھ کر ان کی خدمات کا یقین تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔ ٭ ابن شاہین رحمہ اللہ نے حدیث، تاریخ ، تفسیر، فقہ اور دیگر علوم میں کئی ایک تصانیف چھوڑی ہیں ۔ حدیث میں ’’المسند‘‘ پندرہ سو اجزاء، اور تفسیر ایک ہزار اجزا پر مشتمل ہے۔ ٭ دیباج الذہب میں ہے :’’ قاضی ابو بکر محمد بن طیب الباقلانی رحمہ اللہ ہر رات چالیس رکعت نفل نماز پڑھا کرتے تھے؛ اور زبانی اپنی یادداشت سے جب تک پینتیس صفحات لکھ نہ لیتے تب تک نہ سوتے ؛اس طرح وہ سال میں کل ۱۲۶۰۰ صفحات لکھا کرتے تھے۔ ٭ ابو محمد علی بن حزم رحمہ اللہ نے اسّی ہزار اوراق پر مشتمل چار سو مجلد تحریر کیے۔ ٭ طبقات السبکیہ میں ہے : ’’ امام عبد الرحمن بن ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے تفسیر ،حدیث ، تاریخ اور فقہ میں کئی ایک کتب تحریر کیں ، جن میں سے صرف ایک مسند حدیث میں ایک ہزار اجزا پر مشتمل ہے۔ ٭ مولانا عبد الحئی رحمہ اللہ لکھنوی ۳۹ سال کی عمر میں داعی ٔاجل کو لبیک کہہ گئے ، اس کم عمری کے باوجود ان کی مؤلفات کی تعداد ایک سو دس سے تجاوز کرتی ہے ، جن میں سے بعض