کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 138
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ رسی ایک لمبے زمانہ تک یونہی پڑے رہنے کی وجہ سے چٹان کی پشت پر اس کے نشان پڑگئے ہیں ۔‘‘ ایڈیسن کو اتنی مشقت اور جدو جہد کے بدلے میں کیاملا ، شہرت، دولت ،اور دنیا میں عزت۔ لیکن یہ سب کچھ دنیا ہی کے لیے ہے اور ادھر ہی رہ جائے گا۔ چونکہ اس کے پیچھے نہ اس کی نیک نیتی کار فرما تھی اور نہ اجر وثواب کی امید۔ اور آخرت کے ابدی اجر وثواب سے محروم رہا۔ اے کاش ! کہ اس کے ساتھ اس کی نیت بھی اچھی ہوتی ، مگر یہ چیزیں تو ہمیں دین اسلام بتاتا ہے ، اور وہ اسلام سے محروم اور بہت دور تھا۔ (دیکھئے : اشارات فے الطریق، ص۵۵) فرینک لن: ایک انتہائی محنتی اور انتھک کام کرنے والا ، اوقات کا بے حد پابند تھا،وہ اپنی زندگی کا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتاتھا۔سونے اورکھانے کے لیے انتہائی کم سے کم وقت خرچ کرتا۔ جب وہ بچہ تھا اس نے اپنے والد کو دیر تک کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے دیکھا،کہ وہ ہر پیالہ پر برکت کی دعا مانگ رہا تھا۔فرینکلن نے گھبرا کر اپنے والد سے پوچھا: آپ برکت کی یہ دعا تمام پیالوں پر ایک دم ہی ہمیشہ کے لیے نہیں مانگ سکتے، اس طرح بہت سا وقت بچ جائے گا۔اس آدمی نے اپنی سب سے عمدہ تصنیف جہاز میں سفر کے دوران لکھی۔ جو پتھر پہ پانی پڑے متصل تو بے شبہ گھس جائے پتھر کی سل گاندھی جی: گاندھی جی وقت کے انتہائی پابند تھے۔ اور اس معاملہ میں کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اور نہ کسی طرح کی ملامت کا خوف دل میں رکھتے تھے۔ وقت پر عبادت ، وقت پر ملاقات۔ علامہ شورش کاشمیری لکھتے ہیں : ’’ گاندھی جی وقت کے بڑے پابند تھے۔ ایک بار حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نے ملنے کے لیے وقت لیا ؛ میں بھی ساتھ تھا۔ وقت بہت مختصر تھا۔ جب مجلس