کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 136
سرنغمۂ بیگانہ اس سے میری مراد وہ لوگ ہیں جن کو ہم اسلام قبول نہ کرنے کی وجہ سے اپنا تو نہیں کہہ سکتے، اور نہ ہی ان کے لیے کسی محبت کا اظہار کرسکتے ہیں ۔ لیکن چونکہ ان لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی محنت وکوشش کے بدلہ میں وہ مقام عطا کیا، جو ان کی جدو جہد کے لائق تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دستور یہ ہے کہ کسی کی محنت ضائع نہیں ہوتی۔ وہ لوگ اب ہم میں موجود تو نہیں ہیں ، مگر اپنی یادیں چھوڑ گئے،اور آج بھی دنیا ان کی محنت کے ثمرات سے مستفید ہو رہی ہے۔ اورہر دور میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو صحیح معنوں میں کسی بامقصد کام کے لیے اپنے اوقات کو خرچ کرتے ہیں ۔کافر اب اپنی وقت شناسی کی وجہ سے جو مقام اور ترقی پارہا ہے حقیقت میں اس کا صحیح حقدار تو مسلمان ہی تھا۔ ذیل میں دوتین واقعات صرف مسلم نوجوانوں کی غیرت کو بیدار اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے ذکر کیے جارہے ہیں ۔ پروفیسر آرنلڈ اور علامہ شبلی: یہ واقعہ وقت کی قدر کے لیے اپنے اندر ایک گہرا سبق رکھتا ہے۔ علامہ شبلی اپنے سفر نامہ ’’ روم و مصر وشام ‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا: جہاز کاانجن ٹوٹ گیا ہے ، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے ہوئے پھر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا، اور جہاز نہایت آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا؛میں سخت گھبرا گیا اور دل میں سخت ناگوار خیال آنے لگے، … اس اضطراب میں ،میں اور کیاکرسکتا تھا، دوڑاہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے، میں نے ان سے کہا : آپ کو کچھ خبر بھی ہے؟… بولے : ہاں !انجن ٹوٹ گیا ہے۔ میں نے کہا: