کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 135
مکتوب نویسی نے اس کام میں ان کی بہت مدد کی۔ مراسلہ نگاری کا انہیں ایسا شوق تھا کہ جب تک دن کے دو چار گھنٹے اس شغل میں بسر نہ ہوں ، چین نہ پڑتا تھا، دلی کی بربادی کے بعد کا ان کا حال ان کی ہی زبانی سنیے، لکھتے ہیں :’’میں اس تنہائی میں صرف خطوں کے بھروسے جیتا ہوں ، یعنی جس کاخط آیامیں نے جانا کہ وہ شخص تشریف لایا۔ خدا کا احسان ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جو اطراف وجوانب سے دوچار خط نہ آرہے ہوں بلکہ ایسا بھی دن ہوتا ہے کہ دو دو بار ڈاک کا ہرکارہ خط لاتا ہے۔ ایک دو صبح کو ،ایک دو شام کو۔ میری دل لگی ہوجاتی ہے۔ ‘‘ یہی مسلسل مطالعہ کتب اور کار آمد خط و کتابت وہ چیز ہے جس نے غالب کے نام کو صد احترام کے ساتھ زندہ رکھا ہے۔ ورنہ ان کی غربت کا یہ عالم تھا کہ لکھتے ہیں : ’’ یہاں خدا سے بھی توقع باقی نہیں ، مخلوق کا کیا ذکر۔ کچھ بن نہیں آتی۔آپ اپنا تماشائی بن گیا ہوں ۔ …آئیے نجم الدولہ بہادر! ایک قرض دار کا گریباں میں ہاتھ اور ایک قرض دار بھوگ سنا رہا ہے۔میں ان سے پوچھ رہا ہوں ، جی حضرت نواب صاحب! آپ سلجوقی اورافراسیابی ہیں ، یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے ؟ کچھ تو اکسو، کچھ تو بولو۔ بولے کیا… ، بزاز سے کپڑا، صراف سے دام لے جاتاہے ، اور کبھی یہ بھی سوچتا ہے کہاں سے دوں گا۔‘‘ خود ہی کہتے ہیں : بھرم کھل جائے ظالم ! تیری قامت کی درازی کا اگر اس طرہ پر پیچ وخم کا پیچ وخم نکلے ایک اورشعر: بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا اور شاید انہی کے متعلق کسی نے کہا تھا: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے