کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 134
کے متعلق ہی ایک اور قصہ مشہور ہے۔ گھوڑے پر سوار جارہے تھے کہ اچانک گر پڑے۔ لوگ جمع ہوگئے ، اور بڑے غور سے دیکھنے لگے ؛ جاحظ کو اس بات پر بہت غصہ آیا ، نہ مدد ، نہ غمخواری، کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ بولے : ((مَا لَکُمْ تَکَأْکَأْتُمْ إِلَيَّ کَتَکَأْکَئِکُمْ عَلَی ذِيْ جِنَّۃٍ، إِفْرَنْقِعُوْا عَنِّي۔ ‘‘ قَالُوا: دَعَوْہُ ؛ فَإِنَّ شَیْطَانُہٗ یَتَکَلَّمُ بِاْلھِنْدِیَّۃِ۔)) ’’ تمہیں کیا ہوگیا ہے ، تم مجھ پر ایسے تاڑ جھانک رہے ہو جیسے کسی پاگل کیساتھ کیا جاتا ہے ؟ مجھ سے دور ہوجاؤ۔ ( یہ الفاظ اتنی بلاغت اور بلا کے ادب کے تھے کہ اصل عرب بھی ان کا معنی نہ سمجھ سکے ، اور ) کہنے لگے : ’’ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دو، اس کا شیطان ہندی زبان میں بات کررہا ہے۔ ‘‘ اور انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ ‘‘ عربی کے بڑے پائے کے ادیب تھے۔ وقت شناسی کا عالم یہ تھا کہ ہروقت مطالعہ میں مشغول رہتے۔ کرایہ پر کتابیں لے کر رات بھر مطالعہ کرتے ، اور جب کوئی کتاب اٹھاتے، اسے ختم کرنے تک نہ رکھتے تھے۔عربی ا دب کے اس وسیع مطالعہ کے بعد ایک لافانی ذخیرہ ’’البیان والتبیـین، کتاب الحیوان؛ اور ’’کتاب البخلاء ‘‘کی شکل میں آنے والوں کے لیے چھوڑا۔ آخری عمر میں فالج کا حملہ ہوگیا، لیکن پھر بھی مطالعہ میں غرق رہتے تھے۔ایک دن ایسے ہی مطالعہ میں غرق تھے کہ آس پاس رکھی ہوئی کتابیں ان پر گرگئیں ، مفلوج جسم کی وجہ سے اس بوجھ کے نیچے سے نکل نہ سکے ، اور وہیں جان دے دی۔ میرزا اسد اللہ خان غالب: اردو شعر و نثر کا بے تاج بادشاہ ، میدان ِکتابت میں قلم کا شہسوار ، اور ایسا شاعر و ادیب کہ قومیں بہت کم ایسے لوگوں کو جنم دیتی ہیں ، اور غالباً کسی دوسرے ادب میں ان کا ہم پلہ کوئی نہ ہوگا۔ روزانہ خط و کتابت ان کا محبوب مشغلہ تھا، اور یہی آج ان کا ایک علمی ورثہ ہے۔ انہوں نے جس محنت سے یہ مقام حاصل کیا، اس میں ان کی ذاتی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔