کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 133
جہاز پر سوار ہونے سے لے کر اترنے تک کا سارا وقت مصروفیت میں گزرتا۔ دوتین آدمی بار بار آپ کو کتاب پڑھ کر سناتے ؛ پڑھنے والے تھک جاتے ، مگر شیخ ویسے ہی چست اور ہشاش بشاش رہتے۔ کسی شاعر نے ان کے بارے میں کہا ہے : وَزُہْدُہٗ فِی الدُّنْیَا لَوْ أَنَّ ابْنَ أَدْہَمَ رَأَہٗ أَرْتَأْی فِیْہِ الْمَشَقَّۃَ وَالْعُسْرَا وَکَمْ رَامَتِ الدُّنْیَا تَحِلُّ فُؤَادَہٗ فَأَبْدٰی لَہَاَ نُکْراً وَأَوسْعَہَا ہِجْراً شاید ایسی ہی نابغہء روزگار ہستیوں کے بارے میں کسی نے کہا ہے : دیے سے جلنے لگے زیست کے دھندلکوں میں یہ کس کے روئے درخشاں کی یاد آئی جاحظ: انسان سیرت سے بنتا ہے نہ کہ صورت سے۔ ایک شاعر نے اسے بڑے دلکش و دل نشین پیرائے میں یوں بیان کیا ہے : یَا خَادِمَ الْجِسْمِ کَمْ تَسْعٰی لِخِدْمَتِہٖ وَتَطْلَبُ الْرِّبْحَ بِمَا فِیْہِ خُسْرَانٌ عَلَیْکَ بِالنَّفْسِ فَاسْتَکْمِلْ فَضَائِلَہَا فَأَنْتَ بِالْنَّفْسِ لَا بِالْجِسْمِ إِنْسَانٌ ’’ اے جسم کے خادم! تو اس کی خدمت میں کتنا لگارہے گا؟ اورتو ایسی چیز سے فائدہ طلب کرتا ہے جس میں نقصان ہے۔ تم اپنے نفس کے فضائل مکمل کرو؛ کیونکہ تم نفس کی وجہ سے انسان ہو نہ کہ جسم کی وجہ سے۔ ‘‘ جاحظ کی صورت ایسی تھی کہ ان سے بچوں کو ڈرانے کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ خلیفہ متوکل نے ان کی شکل کی وجہ سے انہیں اپنے بچوں کا استاد مقرر کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کی شکل