کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 132
’’ میں آپ کوبتلاؤں میرے تخیل میں نشاط زندگی کا سب سے بہتر تصور کیا ہوسکتا ہے ؟ جاڑے کا موسم ہو ، اورجاڑا بھی قریب قریب نقطۂ انجماد کا؛ رات کا وقت ہو، آتش دان میں اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں ؛ اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اسکے قریب بیٹھا ہوں ، اورپڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں ۔‘‘[1] امام علامہ بن باز رحمہ اللہ : عالم عرب کے نامور عالم دین ، اپنے وقت کے امام اور مجتہد علامہ بن باز رحمہ اللہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ آپ کی زندگی کے کئی شاندار پہلوؤں میں ایک یہ بھی تھا کہ آپ وقت کی قیمت کا بہت احساس کیا کرتے تھے۔ حتی کہ اگر آپ وضو کررہے ہوتے تو اس حالت میں بھی ان کے شاگرد ان سے مختلف مسائل سمجھ اور پوچھ رہے ہوتے۔ آپ کے دن کی ابتدا فجر سے دو گھنٹے پہلے ہوتی۔ اس وقت بیدار ہوکر جتنااللہ کو منظور ہوتا تہجد ونوافل ادا کرتے۔ نماز فجر کے بعد اشراق تک دروس میں مشغول رہتے۔ اشراق کے وقت گھر آتے ، اور پھر حکومتی امور نبھانے کے لیے دفتر چلے جاتے۔ ظہر کے وقت علما اور طلبہ کی ایک جماعت کے ہمراہ دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے گھر تشریف لاتے۔عصر تک طلبہ کے سوالات کے جوابات دیتے اور ان کے مسائل حل کرتے۔ عصر سے مغرب تک درس دیتے۔ مغرب سے عشاء تک عام لوگوں کے مسائل سننے اور حل کرنے کے لیے بیٹھتے ؛ اور عشاء کے بعد ایک خصوصی مجلس بیرون ملک سے آنے والے مفتیان کرام، علما اور طلبہ کے ساتھ خاص ہوتی۔ اس کے بعد گھر تشریف لاتے ، اہل خانہ کو تعلیم دیتے ، ان کے مسائل سنتے، ضروری ہدایات دیتے ، وعظ ونصیحت کرتے ، اور پھر سوجاتے۔ آپ کا یہ معمول ہمیشہ رہا۔ ان کے ایک شاگرد(سفر و حضر کے ساتھی) محمد موسیٰ کا کہنا ہے : شیخ رحمہ اللہ نے کبھی بھی سفر یا حضر میں ایک منٹ بھی بلا مقصد صرف نہیں کیا۔ اگر جدہ ،طائف یا کسی اور طرف سفر کا ارادہ کرتے، تو
[1] غبارخاطر ؍۱۷۲۔