کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 131
علاوہ آپ کی زیر ادارت شائع ہونے والا مجلہ الہلال بہترین شاہد ہیں ۔ شورش کاشمیری عطاء اللہ شاہ بخاری اور آپ کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ امام الہند کتابوں کے دیوانے تھے ،اور شاہ جی کتاب اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔‘‘ لیکن شاہ جی کو اللہ تعالیٰ نے وہ علم وحکمت ، تدبر وفراست ، صدق ووفا ، جہد ِ صفا ، عزم واستقامت ، منزلت وکرامت ،قوت استدلال اور جوش خطابت ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سچی اور خالص اور پختہ محبت عطا کی تھی کہ بڑے بڑے نامور اور صاحب علم اس سے محروم رہے۔ اور آپ وقت کے طاغوت ا ور اس کے چیلوں کے سامنے کچھ اس عزم سے ڈٹ گئے کہ حالات کا دھارا بدل دیا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور ختم نبوت کی حفاظت کا حق ادا کردیا۔ اور اپنی حیاتِ فانی کو ایسے بقائے دوام بخشا کہ ہر لمحہ حیات کو ختم نبوت کی حفاظت کے لیے وقف کردیا تھا۔ وہ خود اپنے متعلق فرماتے ہیں : ’’ میری زندگی کا ایک حصہ ریل میں ، ایک جیل میں ، اور ایک حصہ خطابت میں گزرا ہے۔ ‘‘ جان کر منجملہ خاصانِ میخانہ مجھے مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے ان ہی لوگوں نے حالات کا رخ بدل دیا۔ آج ایک دنیا انہیں اچھے لفظوں سے یاد کرتی ہے۔ گاندھی نے نہ صرف مولانا کی تعریف کی، بلکہ آپ کی شاگردی اختیار کی، چنانچہ اس نے اعتراف کیا ہے کہ میں پولی ٹکس( سیاست ) نہرو سے اور تاریخ ابو الکلام سے سیکھتا ہوں ۔[1] میں کہتا ہوں : گاندھی کا یہ اعتراف اس لحاظ سے محل نظرہے کہ وہ سیاست نہرو سے سیکھا کرتا تھا، کیونکہ ہندو سیاست میں امن وامان کہاں ، جس امن وشانتی کا وہ پر چار کرتاتھا ؛ یہ بھی بالکل مولانا سے اسلامی تعلیمات اور تاریخ کے ساتھ سیکھا ہوگا؛ مگر اس کاکھل کر اقرار نہ کیا۔ اپنی انوکھی اور نادر خواہشات کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :
[1] بوئے گل نالۂ دل دُودِ چراغ محفل