کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 130
راہ حق میں مصائب اٹھانے میں انہوں نے قرون اولیٰ کے علما کی یاد تازہ کردی تھی۔ کئی بار جیل بھی گئے ؛ وہ جیل میں اپنے معمولات کے بارے میں ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’ چونکہ زندگی کے معمولات میں وقت کی پابندی کا منٹوں کے حساب سے عادی ہوگیا ہوں ، اس لیے یہاں بھی اوقات کی پابندی کی رسم قائم ہوگئی۔ زندگی کی مشغولیات کا وہ تمام سامان جو اپنے وجود کے ساتھ باہر تھا، اگر چھن گیا تو کیا مضائقہ؟، وہ تمام سامان جو اپنے اندر تھا،اور جسے کوئی نہیں چھین سکتا سینہ میں چھپائے ساتھ لایا ہوں ۔ اسے سجاتا ہوں اور اس کی سیر اور نظاروں میں مصروف رہتا ہوں ؛ صرف دو کتابیں میرے ساتھ آگئی تھیں ، جو سفر میں دیکھنے کے لیے رکھ لی تھیں ۔اسی طرح دو چار کتابیں بعض ساتھیوں کے ساتھ آئیں ، یہ ذخیرہ بہت جلد ختم ہوگیا، اور مزید کتابیں منگوانے کی کوئی راہ نہیں نکلی۔ کاغذ کا ڈھیر میرے ساتھ ہے، اور روشنائی کی احمد نگر کے بازار میں کمی نہیں ۔ تمام وقت خامہ فرسائی میں خرچ ہوتاہے۔ ‘‘[1] اپنی عمر رفتہ کے متعلق فرماتے ہیں :’’جتنی زندگی گزر چکی ہے گردن موڑ کر دیکھتا ہوں تو ایک نمود غبار سے زیادہ نہیں ، اور جو کچھ سامنے ہے وہ بھی جلوہ ئِ سراب سے زیادہ نظر نہیں آتا…اس پر بھی اگر داستان سرائی کا شوق ہو تو ان پورے تیس برسوں کی سر گزشت سن لیجیے …’’ ایک صبح امید تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے گزر گئی۔‘‘[2] طبیعت ایسی تھی کہ جو بات کسی سے ایک بار کہتے ، مان لی جائے توبہتر ؛ ورنہ خاموش رہتے ؛او ریہ پریشانی بھی محض اپنے ہی سر لے لیتے۔ مطالعہ کی عادت مرتے دم تک برقرار رہی۔صرف مطالعہ ہی نہ کرتے ، بلکہ جو بات حق سمجھتے اسے تحریر وتقریر کے ذریعے لوگوں تک بھی پہنچاتے۔ اور تحریر میں اللہ تعالیٰ نے اس کمال سے نوازا تھا جوبہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔ آپ کی قوتِ تحریر پرتذکرہ ، غبار خاطر ، ام الکتاب ، اور ترجمان القرآن کے
[1] غبار خاطر؍ ۱۴۵۔ [2] متاع وقت ؍۲۵۹۔