کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 129
اور بے چارگی کے انداز میں مولانا شبیر احمد صاحب کی طرف دیکھتے رہے ، پھر فرمایا: ’’ بھائی ٹھیک کہتے ہو ، لیکن یہ کتاب بھی تو اک روگ ہے ، اس روگ کا کیا کروں ۔ ‘‘[1] علامہ انظر شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ مرحوم کی زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز وصف آپ کا علمی انہماک ہے ، اس گوشہ میں آپ کے حیرت انگیز واقعات ان پرانی شخصیتوں سے ملتے جلتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی صرف اسی راہ میں صرف کی؛ چند ہی گھنٹے آپ کے اس انہماک اور شغف سے فارغ رہتے ؛ ورنہ آپ کا ایک ایک لمحہ علمی عقدوں کو سلجھانے میں مصروف رہتا۔ مولانا ادریس(میرٹھی) نے انہی سے نقل کیا ہے کہ :’’ میں ہر وقت فکر علم میں مستغرق رہتا ہوں بجز ان اوقات کے جب نیند کا شدید غلبہ ہو۔‘‘[2] امام الہند، وابن تیمیۃ الہند ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ : عربی اور اردو ادب کا بے مثال ادیب ،شیریں سخن ،خوئے مرنجا مرنج اور بذلہ سنج خطیب ، عالم لاثانی، شیرربانی ؛ہندوستان کا ابن تیمیہ ، میدان صحافت کا مرد جرار اور تصنیف و تالیف میں قلم کا شہسوار ، خطابت کا بادشاہ ، سیاست کا امام جناب مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ ۔ ایک عرب معاشرہ میں جنم لینے والے بچے نے عجم معاشرہ میں اتنا مقام کیسے پیدا کرلیا ، اس کے لیے ہم انہی کی زبانی معلوم کرتے ہیں ۔ کیونکہ ہر انسان اپنے معاملات کا زیادہ واقف اور عالم ہوتا ہے۔ اپنے ذوق وشوق مطالعہ کے متعلق خود فرماتے ہیں : ’’ لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے ہیں ، مگربارہ تیرہ برس کی عمر میں میرا حال یہ تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشے میں جا بیٹھتا، اور کوشش کرتا کہ لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل رہوں … والد مرحوم میرے اس شوق علم سے خوش ہوتے مگر فرماتے : ’’ یہ لڑکا اپنی تندرستی بگاڑ دے گا۔ معلوم نہیں کہ جسم کی تندرستی بگڑی یا سنوری ، مگر دل کو ایسا روگ لگا کہ پھر کبھی پنپ نہ سکا۔‘‘[3]
[1] متاع وقت؍ ۲۴۸ [2] دیکھیں : متاع وقت؍ ۲۴۹) [3] غبار خاطر ۱۳۹ بتغیر وتصریف