کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 128
روایت : علامہ انظر شاہ نے کراچی میں ایک محفل میں بتائی ہے۔) فرط ِمطالعہ کا یہ عالم تھا کہ اپنے زمانہ طالب علمی میں بیس روز میں پوری تیرہ جلد فتح الباری دیکھ ڈالی۔فتح القدیر کی آٹھ جلدوں کا مطالعہ بیس روز میں کیا۔ مسند احمد بن حنبل کا مطالعہ دو سو صفحہ روزانہ کی رفتار سے کرتے تھے۔ علامہ بنوری رحمہ اللہ ان کی سوانح حیات میں لکھتے ہیں : ’’ عام طور پر اکثر علما اسی وقت کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں جب کسی خاص مسئلہ میں متعلقہ کتابوں کی طرف مراجعت کی ضرورت پڑجائے؛ تاہم شیخ کا طریق کار اس سے یکسر مختلف تھا؛ مطالعہ کے بارے میں ان کا اصول یہ تھا کہ جب کوئی کتاب ہاتھ لگ جاتی، چاہے وہ کتاب مخطوطہ کی شکل میں ہو یا مطبوعہ، سقیم ہو یا سلیم ؛ کسی بھی موضوع سے متعلق ہو، آپ وہ اٹھاتے اول تا آخر پوری کی پوری کتاب پڑھتے …مطالعہ میں شدید محنت اور مشقتیں اٹھائیں ۔ حتی کہ اپنے آپ کو تھکا کر رکھ دیا؛ آپ کی زندگی کی نہ جانے کتنی راتیں ایسی گزریں کہ ان میں پہلو بستر سے نا آشنا اور جدا رہا ۔ ‘‘ ایک مرتبہ بیمار ہوئے ، علالت طول پکڑ گئی؛ فجرکے وقت یہ افواہ مشہور ہوئی کہ شیخ کی وفات ہو گئی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ یہ سن کر آپ کے مکان کی طرف لپکے ، معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی۔ البتہ تکلیف کی شدت تھی جو برقرار ہے۔ عیادت کے لیے کمرے میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ نماز کی چوکی پر بیٹھے سامنے تکیے پر رکھی کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہیں ۔ اور اندھیرے کی وجہ سے کتاب کی طرف جھکے ہوئے ہیں ۔ اس عالم میں بھی یہ شدت اور مطالعہ میں محنت۔ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے پوچھا: ’’ حضرت ! یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اول تو وہ کون سی بحث رہ گئی ہے جو حضرت کے مطالعہ میں نہ آچکی ہو، اور اگر بالفرض کوئی بحث ایسی ہو بھی تو اس کی فوری ضرورت کیا پیش آگئی ہے کہ اسے چند روز مؤخر نہیں کیا جاسکتا … حضرت شاہ جی کچھ دیر تو انتہائی معصومیت