کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 126
پسند نہیں ۔اب اگر لوگوں سے الگ تھلگ رہوں تو بھی مناسب نہیں کہ اس سے انس و محبت کا تعلق ختم ہوجاتا ہے ،اور اگر ان سے لایعنی ملاقاتوں کا سلسلہ قائم رکھوں تو اس میں وقت کا ضیاع اورنقصان ہے ؛ اس لیے میں نے یہ طریقہ اپنالیا ہے، کہ اولاً تو ملاقاتوں سے بچنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہوں ، اور اگر کسی ملاقات کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو ،تو بات نہایت ہی مختصر کرتا ہوں ، مزید یہ کہ ایسے اوقات کے لیے ایسے کام چھوڑ رکھتا ہوں جن میں زیادہ توجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے قلم کا قط لگانا، کاغذ کاٹنا، اور دیگر اس قسم کے ہلکے پھلکے کام میں ملاقات کے وقت کرتاہوں ، اس طرح ملاقات بھی ہوجاتی ہے، اور عمر عزیز کی قیمتی گھڑیاں صرف گفتگو میں ضائع نہیں ہوتی ہیں ۔‘‘ [1] یہی وقت شناسی کی برکت تھی کہ انہوں نے اپنے بعد جو علمی ذخیرہ چھوڑا ہے ، وہ ان کی زندگی کے حساب سے سالانہ کئی جلدیں بنتا ہے۔ ان کی سب سے بڑی کتاب ’’الفنون‘‘ہے ؛ جو آٹھ سو جلدوں میں لکھی تھی۔ حقیقت میں ان کی محنت ، مشقت ، بلند ہمتی، اولو العزمی ، اور اس شرف ومنزلت میں آنے والوں کے لیے سبق ہے کہ جو بھی اگر اس مقام ومرتبہ کے حصول کا خواہش مند ہے ، اسے ان مراحل سے گزرنا ہوگا۔ أَیُّہَا الْمُؤمِنُوْنَ لَا تَتَوَانُوا فَالتَّوَانِيْ وَسِیْلَۃٌ لِلْتَّبَابِ فَإِذَا الْمُصْلِحُونَ فِيْ الْقَوْمِ نَامُوْا نَہَضَتْ بَیْنَہُمْ جَیُوشُ الْخَرَابِ ’’ اے اہل ایمان! سستی نہ کرو۔ بے شک سست روی تباہی کا وسیلہ ہے۔ جب کسی قوم میں اصلاح کرنے والے سوجاتے ہیں ، تو اس قوم میں تباہی کے لشکر جنم لیتے ہیں ۔‘‘[2]
[1] قیمۃ الزمن؍ ۶۱ [2] اشارات الطریق ؍۴۳۔