کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 122
ہاتھوں میں کتاب کبھی نہیں دیکھی، وہ خود پیکر حفظ تھے۔ علی بن خشرم نے پوچھا: ’’ قوت حفظ کی کوئی دوا ہوتو مجھے بتا دیں ؟‘‘ وکیع فرمانے لگے: ’’ اگر بتادوں تو استعمال کروگے ؟‘‘ علی نے کہا: ’’ واللہ کیوں نہیں ؟‘‘ فرمایا: ’’ ترک معاصی ؛ قوت حفظ کے لیے اس سے زیادہ مجرب دوا میں نے نہیں دیکھی …‘‘[1] حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے جب خرابیء حافظہ کی شکایت کی ،تو ان کو جو جواب اپنے استاد سے ملا ؛وہ اسے یوں بیان کرتے ہیں : شَکَوْتُ إِلَی وَکِیْعٍ سُوْئَ حِفْظِيْ فَأَوْصَانِيْ إِلَی تَرْکِ الْمَعَاصِيْ فَإِنَّ الْعِلْمَ نُوْرٌ مِنْ إِلٰہٍ وَنُوْرُ اللّٰہِ لَا یُعْطَی لِعَاصٍ ’’ میں نے وکیع کے پاس خرابیء حافظہ کی شکایت کی ، انہوں نے مجھے گناہ چھوڑنے کی وصیت کی۔ بیشک علم رب کا نور ہے ، اوراللہ کا نور گنہگار کو نہیں دیا جاتا۔‘‘ سحری کوبیداری، نماز فجر کے بعد حلقہئِ درس،چاشت کے بعد آرام، اورنمازِ ظہر کے بعد چہل قدمی ان کا معمول تھا۔اس چہلی قدمی کے دوران وہاں سقوں کی گزرگاہ میں پہنچ کر ان کو قرآنی سورتیں یاد کراتے۔ جو آج کل کا معمولی مولوی بھی گوارا نہیں کرتا۔مگر خاتم النبیین محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ،راست باز اور پاکیزہ فطرت خدام اپنے وقت کے امام ہی نہیں ، بلکہ امام واستاد الائمہ ہیں ؛ یہ پاک باز انسان اللہ کے دین کی خدمت کے لیے خود چل کر جہلا کے پاس جاتے ، اور انہیں تعلیم دیتے۔یہ کام وہ اپنی ذات کے لیے مختص کیے گئے وقت میں کرتے۔ عصر کے بعد دوبارہ درس اور نماز مغرب کے ساتھ ہی افطار ، اور اس کے بعد ذکر واذکار ان کا معمول تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نعمت ِ وقت کی قدر کی اوراپنی تاریخ رقم کر گئے :
[1] تہذیب الکمال ۳؍۳۸۔