کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 121
خلوت اور لوگوں سے الگ رہنے کی تعلیم دیتے تاکہ وقت ضائع نہ ہو، کم کھانے کی تاکید کرتے۔ خود کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے ،ایک بار سیر ہوکر کھایا، تو قے کردی ۔فرماتے تھے: پیٹ بھر کر کھانے سے بدن بوجھل ہوجاتا ہے ،دل ثقیل رہتاہے،نشاط وذکاوت ختم ہوجاتی ہے، اور نیند آنے لگتی ہے۔ ان کی رات بھی نظام الاوقات کی پابند تھی، رات کے تین حصے کردیے تھے۔ اول حصہ میں لکھتے، دوسرے حصہ میں نماز اور تیسرے حصہ میں آرام کرنا معمول تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے علم کی غیر معمولی محبت عطا کی تھی۔ ان سے پوچھا گیا : ’’ علم کے ساتھ آپ کی محبت کیسی ہے ؟ فرمانے لگے: جب کوئی نئی بات کان میں پڑتی ہے تو میرے جسم کا ہر ہر عضو اس کے سننے سے محظوظ ہوا چاہتا ہے ۔‘‘ پھر دریافت کیا گیا: ’’ علم کے لیے آپ کی حرص کتنی ہے ؟ فرمانے لگے: ’’ سخت بخیل آدمی کو جتنی مال کی حرص ہوتی ہے۔ ‘‘ پوچھا گیا : ’’ علم کی طلب میں آپ کی کیا کیفیت ہوتی ہے ؟ فرمایا : ’’ گمشدہ اکلوتے بیٹے کی ماں کی اپنے بیٹے کی طلب میں جو کیفیت ہوتی ہے۔‘‘ اور فرماتے تھے : ’’ عالم کوہر قسم کے مسائل پوچھنے چاہئیں کہ پوچھنے سے جو مسائل معلوم ہیں ان کی پختگی ہوگی ، اور جو معلوم نہیں ہیں ان کا علم ہوگا۔[1] امام صاحب رحمہ اللہ نے امت کے لیے کئی ایک بیش قیمت کتابوں کا خزانہ چھوڑا ہے ؛ جن میں ’’ کتاب الأم‘‘ اور ’’الرسالۃ ‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ حضرت شیخ المشائخ وکیع بن جراح رحمہ اللہ : عبد اللہ بن مبارک، احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین رحمہم اللہ کے استاد، فقہ وحدیث کے امام قاریء قرآن ، عابد اور زاہدتھے۔ وقت کے ایسے پابند کہ دوسروں کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ تھے۔ ہر رات ایک قرآن ختم کرتے تھے؛ دن کو روزہ معمول رہا۔ حافظہ اتنا قوی تھا کہ حدیث کی مجلس میں زبانی املا کراتے تھے۔ علی ابن خشرم رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ میں نے وکیع کے
[1] مختصر ازمتاع وقت و کاروان علم۔