کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 120
ہو کر کہنے لگے:اے ابراہیم! اس مسئلہ میں تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اس حالت میں بھی آپ مسائل پوچھ رہے ہیں ؟ فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، ہم پڑھتے ہیں ، شاید کہ کوئی انسان اس سے نجات پالے۔ پھر مسئلہ پوچھا : جمرات کی رمی پیدل افضل ہے یا سواری پر؟ابراہیم نے کہا: پیدل ؛ فرمایا : غلط، عرض کیا : سوار ؛ فرمایا: غلط۔ کہنے لگے : آپ ہی بتادیں ؛ فرمایا: ’’جس رمی کے بعد دعا کے لیے وقوف ہو ،وہاں پیدل، ورنہ سواری پرافضل ہے۔‘‘ ابراہیم اجازت لے کر ابھی دروازہ سے ہی گزرے تھے کہ حالت نزع میں بھی ان علمی مسائل پر بحث کرنے والا یہ عظیم انسان اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ گیا۔ ‘‘[1] دِقَّاتُ قَلَبَ الْمَرئِ قَائِلَۃٌ لَّہُ إِنَّ الْـحِـیَاۃَ دَقَـائِـقٌ وَّثَـوَانٌ فَارْفَعَ لِنَفْسِکَ بَعْدَ مَوْتٍ ذِکْرَھَا فَالْذِّکْرُ لِلإِنْسَانِ عُمْرُ ثَانٍ ’’ دل کی دھڑکنیں انسان سے کہہ رہی ہیں : بے شک زندگی چند منٹ اور سیکنڈ ہے۔ پس اپنی موت کے بعد اپنی یادیں چھوڑ جا، گویا یادیں انسان کے لیے دوسری عمر ہیں ۔‘‘ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ : شفقت پدری سے محروم یہ بچہ والدہ کی کفالت میں تربیت پارہا تھا۔حالت یہ تھی کہ استاذ کودینے کے لیے کچھ نہیں تھا، اس کے بچوں کی نگرانی کے معاوضہ پر معلم کو تعلیم دینے پرراضی کرلیا۔لکھنے کے لیے کچھ میسر نہیں آتا تھا، ایک تھیلے میں صاف ہڈیاں جمع رکھتے، ان پر لکھ لیتے ، اور رات کو پڑھنے کے لیے چراغ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری دیوان چلے جاتے۔رمضان میں ساٹھ بار قرآن ختم کرنا معمول تھا۔لایعنی اور بے فائدہ کاموں سے بچنے کی بڑی تاکید کرتے؛ فرماتے: غیر مفید کاموں سے بچنے سے دل پر نور چھایا رہتا ہے۔
[1] قیمۃ الزمن عند العلماء۲۹۔