کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 119
حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے وقت کو اتنا مصروف رکھا، اور اپنی فراغت پر ایسے قابو پایا ، اور زمانہ سے ایسے استفادہ کیا کہ ان کے علمی ، ادبی شاہکار اور خدمات آج بھی ان کی تصنیفی مہارت، وقت شناسی اور قدر دانی کی گواہی دیتے ہیں ۔ اور ان کے وقت سے استفادہ کرنے کے متعلق جو قصے بیان کیے جاتے ہیں وہ افسانہ اور کہانیاں معلوم ہوتی ہیں ؛ مگر حقائق کے میدان میں یہ سب کچھ ایک اٹل حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں ۔ اسلامی تاریخ میں ایسی مبارک ہستیوں کی کمی نہیں ۔ ان میں سے چند ایک کے واقعات جو بڑے عجیب اور بھلے لگے، اور وہ نصیحت آموز بھی تھے، ان کا ذکر یہاں اس امید سے کیا جارہا ہے کہ شاید اللہ سبحانہ وتعالی ان سے کسی کو نفع دے دیں ؛ اور اس کی زندگی کا رنگ بدل جائے۔ حضرت قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ : اپنے وقت کے امام ، قاضی القضاۃ ، اور حکومت عباسیہ کی ایک اہم شخصیت؛ فقہ حنفی کے مؤسس و مدوِّن و سرخیل، اور مسلک احناف کے ناشر و جرنیل ؛ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد اور معتمد خاص ہیں ۔وہ اپنے دورِ طالب علمی کے متعلق فرماتے ہیں : ’’ طالب علمی کے دور میں میرے گھر والے میرے کھانے کا یہ انتظام کرتے تھے کہ چند روٹیاں دہی کے ساتھ ٹھونک لی جاتی تھیں ،دہی کھاکر سویرے درس کے حلقوں میں حاضر ہوجاتا … اس لیے جوچیزیں مجھے معلوم ہوئیں ، اعلیٰ کھانوں کا انتظار کرنے والوں کو معلوم نہ ہوئیں ۔[1] اس محنت ومشقت کا نتیجہ اللہ تعالیٰ نے حکومت، مال و مرتبہ ہر چیز سے نوازا تھا۔ مگر قدرِ نعمت اور ذمہ داری کے ساتھ ساتھ دین سے محبت کا کس قدر خیال تھا ، ذیل کے قصہ سے ملاحظہ فرمائیں ۔ قاضی ابراہیم بن جراح کہتے ہیں : قاضی ابو یوسف بیمار ہوگئے، میں ان کی عیادت کے لیے گیا، وہ بیہوشی کے عالم میں پڑے ہوئے تھے۔ جب ہوش آیا تو مجھے مخاطب
[1] اختصار وتصرف متاع وقت۔