کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 114
حریص تھے۔ خواہ وہ کوئی عالم ہو یا طالب علم، عابد ہو یا مجاہد۔ اس بارے میں وہ ایک دوسرے کی اقتدا کرتے تھے۔ اورآپس میں ایک دوسرے کو وقت کی حفاظت اوراسے نیک اعمال سے معمور کرنے کی وصیت کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے پر لحظات اورگھڑیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ یہ سب کچھ وقت کی غنیمت حاصل کرنے کی حرص میں تھا تاکہ ان کی کوئی گھڑی بلا مقصد ضائع نہ ہو۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وقت بادل کی طرح گزر جاتا ہے ، اور ہوا کی سی تیز رفتار چلتا ہے؛ اور جو گزر گیاوہ قیامت تک کبھی بھی واپس نہیں آئے گا۔اس کی چند ایک مثالیں صرف اہل غفلت کی بیداری کے لیے پیش کی جاتی ہیں : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کرتے تھے؟ فرمایا: (( کَانَ یَکُوْنُ فِيْ مِہْنَۃِ أَہْلِہٖ ؛ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَا ۃُ ، خَرَجَ إِلَی الصَّلاَۃِ۔)) [1] ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں اپنے اہل خانہ کی خدمت میں مشغول رہتے ، اور جب نماز کا وقت ہوجاتا ، نماز کے لیے نکل جاتے۔ ‘‘ اس حدیث میں دوباتیں اس موضوع کے لحاظ سے ہمارے لیے اہم ہیں : ۱: اپنے اہل خانہ کی خدمت ،یعنی اجتماعی بھلائی کا کام۔ ۲: نماز کی حفاظت : اپنے نفس کی تربیت ، اور ایمانی ترقی و برتری ۔ سیّدناحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روزانہ بارہ ہزار مرتبہ ’’سبحان اللہ‘‘ کہتے ، اور فرماتے تھے : ’’میں اپنے گناہوں کے برابر اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہوں ۔‘‘ (صفوۃ الصفوۃ) سیّدناحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ میں کسی چیز پر ایسے نادم نہیں ہوتا جیسے اس دن پر نادم ہوتا ہوں جس کا سورج غروب ہوا، میری عمر میں ایک دن کم ہوگیا، مگرعمل میں کچھ اضافہ نہیں ہوا۔ ‘‘[2]
[1] بخاری؛ باب: من کان في حاجۃ أہلہ فأقیمت الصلاۃ، فخرج ؛ ح: ۶۴۴۔ [2] قیمۃ الزمن عند العلماء ۲۷۔