کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 113
تمام گناہ بخش دے گا، وہ بڑا ہی بخشنے والا اور مہربان ہے۔ ‘‘ * جس کے لیے آزمائش کاوقت ہو اس کو صبر اور رضاکا شیوہ اپنانا چاہیے ، اس سے مراد اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ اور اس کی رضا پرراضی کرنا ہے۔ صبر سے مراد دل کا اللہ تعالیٰ کے حکم اور قضاپر ثابت قدم رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ‎﴿١٥٥﴾‏ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ‎﴿١٥٦﴾ ( البقرۃ:۱۵۵، ۱۵۶) ’’ اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کچھ نقصان دے کر جانوں اور اموال اور پھلوں میں ، اورخوشخبری ہو صبر کرنے والے لوگوں کے لیے جنہیں جب مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں : ہم سب اللہ ہی کے لیے ہیں ، اورہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ‘‘ * جس انسان کے لیے اطاعت کاوقت موافق ہو؛ اس کے لیے اس کے نفس پر راہ اللہ کی نعمتوں کا مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نیکی کی طرف ہدایت اور اس کی توفیق دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ‎﴿٥٨﴾ (یونس :۵۸) ’’ آپ فرمادیں یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے ، سو اسی وجہ سے خوش ہو جاؤ ، یہ اس چیز سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں ۔ ‘‘ یہی سات آسمانوں کے اوپر سے آنے والا پیغام ہے جس کی دعوت وقت کے سب سے بڑھ کر عظیم اور باہمت لوگ پیش کرتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کے بعد سلف صالحین رحمہم اللہ اور بعد میں آنے والوں میں سے جو لوگ ان کی راہوں پر چلتے رہے وہ اپنے وقت کی حفاظت اور اسے نیکیوں سے معمور کرنے کے بارے میں سب سے بڑھ کر