کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 108
دنیا کی حقیقت کو اچھی طرح سے سمجھیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَالِيْ وَ لِلْدُّنْیَا ،إِنَّمَا مَثَلِيْ وَمَثَلُ الدُّنْیَا کَمَثَلِ الرَّاکِبِ، اسْتَظَلَّ فِيْ ظِلِّ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا۔))[1] ’’میرے لیے اس دنیا میں کیا ہے؟ ، بے شک میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار کی،جس نے درخت کے سائے میں تھوڑی دیر کے لیے آرام کیا، اور پھر چلتا بنا، اور درخت کو ادھر ہی چھوڑ گیا۔‘‘ بقول شاعر : چلے گا بزم میں جامِ شرابِ مشکبو کب تک رہیں گے زینت محفل بتانِ شعلہ رُو کب تک بڑھے گی دولتِ دنیادُوں کی آرزو کب تک تیری کروفر کب تک جہاں میں اور تو کب تک کفن بردوش صیاد پھرتا ہے گلشن میں نہ شاخِ گل پہ چُوکے گا ، نہ چھوڑے گا نشیمن میں متاع ِگراں مایہ : زندگی ایک ایسی نعمت ہے جو آفاقی وسعتوں کے ساتھ ساتھ انتہائی تنگی ٔداماں کی شکایت کررہی ہے؛ گنتی کی چند سانسیں اور چند ساعتیں اور ان میں کئی ایک ذمہ داریاں ۔ پھر ان سانسوں میں نہ کمی ممکن ہے ، اور نہ زیادتی ، بلکہ انسان اس معاملہ میں کچھ اختیار رکھتا ہی نہیں ؛ فرمانِ الٰہی ہے :
[1] مصنف ابن أبی شیبۃ؛ کتاب الزہد ؛ ما ذکر فی زہد الأنبیا وکلامہم علیہم السلام ـ ما ذکر عن نبینا صلی اللہ علیہ وسلم فی الزہد ؛ حدیث :۳۳۶۳۷۔ سنن ابن ماجہ ؛ کتاب الزہد ؛ باب مثل الدنیا؛ حدیث :۴۱۰۶۔سنن الترمذی الجامع الصحیح ؛ الذبائح ؛ أبواب الزہد عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ حدیث :۲۳۵۶۔ مسند ابو یعلی /صحیح ،فقہ السیرۃ للألبانی )۔