کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 106
٭ بیماری سے قبل صحت کی نعمت کی قدر کس طرح کی؟
٭ مصروفیت سے قبل فراغت کی نعمت کا احساس کیوں کر کھوگیا ؟
٭ فقر سے قبل تونگری کی نعمت سے کیا فائدہ اٹھایا؟
کیالوگ یہ بات بھول گئے ہیں کہ جب بھی کسی روح کا وقت پورا ہوجاتاہے ، وہ ایک لمحہ کے لیے دیر نہیں لگاتی ، اور نہ ہی حالات اور جگہ کی رعایت کرتی ہے ، بلکہ فوراً اس قفس ِ عنصری سے پروازکرجاتی ہے۔ اور اس کے بعد یہ بدن جس کو ہم نے طرح طرح سے آرام پسند بنایا ہے، اور اس کی عیش وعشرت کا خیال رکھتے ہیں ، بالکل ایک ایسی بیکار چیز ہوجاتی ہے کہ کوئی چند گھنٹوں کے لیے بھی اس بدن کو اپنے پاس نہیں رکھتا ، بلکہ فوراً اسے مٹی تلے دفنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اب اس کے بعد شروع ہونے والا مقام اپنے اعمال کی جزاء پانے کا ہے ؛ کیا کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ایک ایک لمحہ کرکے روح کا ٹائم ختم ہورہا ہے ، ہم نے آخرت کے لیے کتنا سامان کیا ،کیا اس جوابدہی کااحساس کیا ہے جو بدن ہی کے غلام بنے ہوئے ہیں ؟ یاد رکھیں ! ہر انسان اپنے کیے پر جواب دہ ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں :
﴿ فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٩٢﴾ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٩٣﴾ (الحجر:۹۲۔۹۳)
’’سو آپ کے رب کی قسم ! ہم ان سب سے ضرور سوال کریں گے ، اس کے متعلق جو کچھ وہ کرتے تھے۔‘‘
خواجہ عزیز الحسن مجذوب کہتے ہیں :
تجھے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا
جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آکے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کردے گی بالکل صفایا