کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 105
٭ کسی نے سیر وتفریح کے لیے ایسے مقامات کا سفر کیا جہاں پر محض برائی ہے،اور فحاشی۔ ٭ عام ادبی اور ثقافتی کتابوں کے مطالعہ میں غرق رہا ،یا مختلف فنون سیکھے۔ یہ لوگ بھی اس لحاظ سے قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے خود کو حرام کاری سے بچایا ، مگر اس طرح وقت کا گزرنا کبھی کبھار گناہ میں پڑنے کا سبب بن جاتاہے۔ ٭ اورکتنے ہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اللہ کو اور آخرت کو بھلادیا،اور دنیااور اس کی زیب وزینت کو آخرت پر ترجیح دی۔ جن کے یہ اوقات بد بختی ، گناہ ، خیانت، فحاشی ، لا یعنی اور بے فائدہ کاموں میں گزرتے ہیں ۔ جن کے لیے یہ گھڑیاں اپنے پیچھے غم ، پریشانی اورافسوس کی ایک جلن چھوڑجاتی ہیں ۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ لمحات اللہ کی نافرمانی میں بسرہوں ؛ جن میں واجبات کو ترک اور حرام کاموں کا ارتکاب کیا جائے۔ حقوق اور امانات ضائع کیے جائیں ۔ چار روزہ حیات ِ مستعار کے ان اوقات کو حرام اور ناجائز کاموں کے لیے سنہری موقع سمجھا جائے۔ اور کتنے ہی لوگ ہیں جو حرام کاری ، گناہ ، اور دیگر ایسے ہی کاموں کے لیے با ضابطہ منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ ہمیں ان اوقات میں کیا کرنا ہے ؟ ٭ جب کہ مومن جس کو اپنے مرنے اور اپنے رب سے ملنے پر یقین ہے ، اس وقت تک جہد مسلسل میں لگا رہتا ہے جب تک رب کی طرف سے اس کے بلاوا نہ آجائے۔ ٭ اگر انسان صحیح معنوں میں غور وفکر کرے تو پتہ چلے گا کہ وقت ہی سب سے قیمتی چیز ہے؛ کیونکہ باقی مال ودولت تو آتے جاتے رہتے ہیں ، مگر گیا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔ ہر آنے والی فجر پکار کر کہتی ہے: اے ابن آدم ! میں ایک نیا دن ہوں ، جو تیرے اعمال پر گواہ ہوں ، اور مجھے غنیمت جان لے ،میں قیامت تک دوبارہ پلٹ کر نہیں آؤں گی۔ فکر وعبرت: زندگی کوموت سے قبل فرصت جاننا کہاں گیا؟ اور بڑھاپے سے قبل جوانی کی نعمت کا کیا بنا؟