کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 101
اور قدرت کی ہوتی ہیں ۔اس وقت انسان ہر کام کو اچھی طرح کرسکتا ہے۔اور اس وقت خواہشات کو مارنا عزم اور ہمت کی بات ہے۔ شاعر کہتا ہے : بے سود ہے اس وقت نیکی کی تمنا جب نطق واشارہ کی بھی قوت نہیں رہتی جاحظ نے اپنی آخری عمر میں اس کو بڑے خوبصورت اور دکھ بھرے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : أَتَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنَ وَأَنْتَ شَیْخٌ کَمَا قَدْ کُنْتَ أَیَّامَ الشَّبَابِ لَقَدْ کَذَبَتْکَ نَفْسُکَ لَیْسَ بِثَوْبٍ دَرِیْسٍ کَالْجَدِیْدِ مِنَ الثِّیَابِ ’’ کیا تو بڑھاپے میں بھی تو عہد ِشباب کی سی صحت کی امید رکھتا ہے۔ یہ خود کو غلط فہمی میں مبتلا رکھنا ہے ،کیونکہ پرانا اور نیا کپڑا برابر نہیں ہوتا۔ ‘‘ فرمان الٰہی ہے : ﴿ وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا ‎﴿١٩﴾ (الاسرا:۱۹) ’’اور جس کسی نے آخرت کو سنوارنے کا اردہ کیا اور اس کیلئے کوشش بھی کی، اور وہ ہے بھی ایمان والا ، پس ایسے ہی لوگوں کی کوششیں قابل شکر(بار آور) ہیں ۔‘‘ حضرت وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جس انسان نے شہوت کو اپنے قدموں کے تلے روند دیا، شیطان اس کے سائے سے بھی ڈرتا ہے۔ وہی انسان خواہشات کو مغلوب، نفس کا محاسبہ، اور برائیوں کا خاتمہ کرسکتا ہے …اور جس نے اپنے مستقبل کی اصلاح کرلی،اس کی سابقہ غلطیاں معاف کردی جاتی ہیں ۔ ‘‘