کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 100
۵۔ علم کے مطابق کیا عمل کیا ؟…‘‘ اس حدیث میں دو اہم نکات ہیں : ۱۔ وقت کی قدر : وقت اپنے سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ، دن اور سال کے حساب سے انسان کے پاس امانت ہے ، اور اس کے متعلق سوال ہوگا۔پس ہر لحظہِ حیات جوابدہی کی تیاری میں صرف ہونا چاہیے۔ شاعر کہتا ہے : وَالْوَقْتُ أَنْفَسُ مَا عُنِیْتَ بِحِفْظِہٖ وَأَرَاہٗ أَسْھَلُ مَا عَلَیْکَ یَضِیْعُ ’’ اور وقت وہ سب سے قیمتی چیز ہے جس کی حفاظت کا آپ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کا ضیاع آپ کے لیے سب سے آسان ہے۔‘‘ فرمان الٰہی ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر:۱۸) ’’ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو،اور چاہیے کہ ہر جی دیکھے اس نے کل کے لیے کیابھیجا ہے۔ ‘‘ اس لیے دانش مندی کا تقاضا ہے کہ افسوس وحسرت کا وہ وقت آنے سے قبل تیاری کرلیں ، کہ عمر کا ایک ایک لمحہ ختم ہوا جارہا ہے : میں دیکھتا ہی رہ گیا نیرنگیٔ صبح وشام عمر فسانہ ساز گزرتی چلی گئی ۲۔لمحاتِ جوانی کی خصوصیت: روزِمحشر جب کسی کو کوئی کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا ،اس وقت جہاں باقی زندگی کے متعلق پوچھا جائے گا ، وہاں جوانی کے متعلق خاص سوال ہو گا۔ کیونکہ جوانی کی گھڑیاں توانائی