کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 98
ہشام بن عروہ، عبید اللہ بن عمر اور جابر الجعفی اور بہت ساری مجہول خلقت سے بھی روایت کرتا ہے۔ وہ بڑا جانکار مؤرخ تھا۔
عباس بن یحی کہتے ہیں : ’’ضعیف ہے۔‘‘ مطین نے یحی سے روایت کیا ہے کہ :’’ اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔ ‘‘ ابو داؤد نے کہا ہے : ’’کسی قابل ہی نہیں ہے۔ ‘‘
ابو حاتم نے کہا ہے :’’ متروک ‘‘ ہے۔
ابن حبان نے کہا ہے :اس پر’’زندیق ‘‘ ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے۔
ابن عدی نے کہا ہے :’’ عام طور پر اس کی احادیث منکر ہوتی ہیں۔‘‘[1]
علامہ ابن حجر ؒنے کہا ہے :’’ حدیث میں تو ضعیف ہے ؛ لیکن تاریخ بیان کرنے میں بہت ہی عمدہ ہے۔ ‘‘
اور ابن حبان کی طرف سے زندیق ہونے کی تہمت کے بارے میں کہتے ہیں :’’ ابن حبان نے اس کے بارے بہت ہی فحش ( بری) بات کہی ہے۔ ‘‘[2]
سو علماء جرح وتعدیل کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ سیف (بن عمر) حدیث میں ضعیف ہے ؛ اور تاریخ میں اس کی روایت فقط مقبول ہی نہیں بلکہ بہت عمدہ ہے۔ جیساکہ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ یہاں سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سیف بن عمر کی سند سے روایت ہونے والی تاریخی اخبار محدثین کے ہاں مقبول ہیں۔ اسی لیے انہیں علماء و محدثین اوردوسرے لوگوں کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔ اور ابن سبا کے بارے میں سیف بن عمر کی روایات پر اپنی کتابوں میں اعتماد کیاہے۔
ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن عساکر سے ابن سبا کے بارے میں روایات نقل کرنے کے بعد کہا ہے :
’’ عبد اللہ بن سبا کی خبریں تاریخ میں بہت ہی مشہور ہیں۔‘‘[3]
حقیقت میں ابن حجر رحمہ اللہ نے ان روایات کے مشہور ہونے کی تصریح کی ہے ؛ اور انہی روایات میں سے سیف بن عمر کی روایات بھی ہیں۔
ذہبی نے اپنی کتاب ’’ تاریخ الاسلام ‘‘ کے مصادر میں کتاب ’’الفتوح‘‘ کو بھی جگہ دی ہے۔ وہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے اس تالیف کے لیے بہت ساری مصنفات میں سے مطالعہ کیا اوران کا مواد دیکھا (جیسے) دلائل النبوۃ بیہقی کی،اور السیرۃ ابن اسحاق کی ؛اور الفتوح سیف بن عمر کی۔‘‘[4]
دوسری دلیل پر رد :
رہا عبد اللہ بن سبا کے وجود کے منکرین کی دوسری دلیل پر رد : یعنی ان کا یہ گمان کہ ابن سبا کا حقیقت میں کوئی وجود
[1] تاریخ مدینۃ دمشق ( القسم المخطوط ) ورقۃ ۱۶۷۔
[2] المصدر السابق۔
[3] عبد اللّٰه بن سبا وأثرہ في إحداث الفتنۃ في صدر الإسلام : سلیمان عودۃ ص ۵۶۔
[4] الضعفاء و المتروکین : ص : ۲۹۳۔