کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 97
دوسری روایات کو یقینی بناتی ہیں۔
’’ابن عساکر نے عمار الدہنی سے روایت کیا ہے ؛ وہ کہتا ہے : ’’ میں نے سنا ابو طفیل کہہ رہا تھا: ’’ میں نے مسیب کو دیکھا، وہ (ابن سوداء کو)پکڑ کر لایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ منبر پر تھے۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا :’’اس کا کیا معاملہ ہے ؟ تو (پکڑ کر لانے والے نے )کہا : ’’یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتا ہے۔‘‘[1]
نیز یزید بن وہب کی سند سے بھی حضرت علی سے روایت کیا ہے؛ (انہوں نے ) فرمایا:’’ میرا اور اس کالے(ابن سباء) کا کیا تعلق ہے۔ ‘‘
دوسری سند بھی یزید بن وہب کی جناب سلمہ سے ہے۔ وہ ’’شعبہ ‘‘ سے روایت کرتے ہیں ؛ (امام شعبہ نے) فرمایا: ’’ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ میرا اس کالے سے کیا تعلق ہے جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ ‘‘[2]
یہ روایا ت اس بات کی دلیل ہیں کہ سیف بن عمر ابن سبا کی روایات نقل کرنے میں بالکل اکیلا نہیں ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ کئی ثقہ راویوں نے بھی اس کی خبریں روایت کی ہیں جو منکرین کے دعویٰ کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں ؛ جس پر یہ مقدمہ قائم ہے۔
سلیمان عودہ صاحب لکھتے ہیں :’’ میں نے یہ روایات ان کی اسناد کے ساتھ امام ناصر الدین الالبانی ( رحمہ اللہ )کے پاس بھیجیں تاکہ ان کا مطالعہ وتحقیق کی جائے ؛ سو انہوں نے ان کو صحیح ؛ حسن، اور صحیح لغیرہ کے مطابق مرتب کیا۔‘‘[3] (یعنی یہ روایات اس مرتبہ کی ہیں،ان میں کوئی ضعیف روایت نہیں ہے )‘‘
مقدمہ دوم پر رد:
دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ ’’سیف(بن عمر) ضعیف ہے۔ ‘‘ اور اسے علماء جرح و تعدیل نے ضعیف کہا ہے۔ سیف بن عمر کے بارے میں علماء جرح وتعدیل کی طرف رجوع کرنے سے ہمیں یہ نتیجہ ملتا ہے :
امام نسائی کہتے ہیں : ’’ سیف بن عمر ضعیف ہے۔ ‘‘[4]
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سیف بن عمر الضبی الأسدی، اور اسے تمیمی برجمی بھی کہا جاتا ہے؛ اور سعدی کوفی بھی کہا جاتا ہے ؛ یہ ’’الفتوح‘‘ اور ’’الردۃ ‘‘ اور ان کے علاوہ دیگر کتابوں کا مصنف بھی ہے۔ یہ بھی واقدی کی طرح ہے ؛
[1] ’’التمہید والبیان في مقتل عثمان بن عفان‘‘نقلاً عن مرتضی عسکری ؛ عبد اللّٰه بن سبا و أساطیر أخری ۱/۶۷۔
[2] ’’ التمہید والبیان في مقتل عثمان بن عفان ‘‘ نقلاً عن کتاب :’’ عبد اللّٰه بن سبا وأثرہ في إحداث الفتنۃ في صدر الإسلام : سلیمان عودۃ ص ۵۶۔
[3] تاریخ الإسلام ۲/ ۱۲۲ - ۱۲۳۔
[4] تاریخ الإسلام۱/ ۱۴ - ۱۵۔