کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 96
جن کو علماء اور مؤرخین نے اپنی کتابوں اور تاریخ میں لکھا ہے؛ جیسا کہ ’’کتاب الفتوح ‘‘ سیف بن عمر تمیمی کی۔‘‘ [1]
سو مالقی تو کہہ رہا ہے کہ وہ برراہ راست سیف بن عمر کی کتاب سے روایت کو اخذ کر رہے ہیں۔ اور اس کتاب کی روایات میں عبد اللہ بن سبا کے بارے میں کچھ یوں بھی ہے :
’’سن ۳۳ ہجری میں ایک جماعت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں سر گرم ہوگئی۔‘‘ وہ ایک جماعت تھے۔ جن میں مالک بن اشتر، أسود بن یزید؛ عبد اللہ بن سبا المعروف ابن سوداء ہے۔ ‘‘[2]
۳:امام ذہبی (متوفی ۷۴۸ہجری ) کی سند سے:
امام ذہبی نے اپنی کتاب ( تاریخ اسلام ) میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے ابن سبا کے بارے میں حدیث ذکر کی ہے ؛ جسے وہ سیف بن عمر سے نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں :’’سیف بن عمر عطیہ سے روایت کرتا ہے وہ یزید النقعسی سے؛ وہ کہتا ہے: ’’ جب ابن سوداء مصر کی طرف نکلا تووہ ہاں کنانہ بن بشر کا مہمان بنا۔‘‘[3]
اورجو چیز ہمارے سامنے بطور دلیل کے آتی ہے وہ یہ کہ یہ روایت امام ذہبی نے براہ راست سیف بن عمر کی کتاب سے لی ہے؛ طبری کی سند سے نہیں ہے، اس کی دو وجوہات ہیں :
اول:… یہ روایت طبری میں موجود ہی نہیں ہے۔
دوم:… امام ذہبی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں ان مصادر کا ذکر کیا ہے جن سے انہوں نے استفادہ کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں :
’’میں نے اس کتاب کی تالیف میں بہت ساری کتابوں اور ان کے موادکو دیکھا، ان میں دلائل نبوت بیہقی کی …اور’’ الفتوح ‘‘ سیف بن عمر کی بھی شامل ہیں۔‘‘[4]
سو یہ تین اسناد ہمارے لیے اس بات کی دلیل ہیں کہ ابن سبا کی روایت سیف بن عمر سے روایت کرنے میں طبری اکیلا نہیں ہے ؛ اور نہ ہی وہ ان خبروں کا صرف ایک ہی مصدرہے بلکہ سیف بن عمر سے روایت کرنے میں اس کے ساتھ ابن عساکر مالقی اور ذہبی شامل ہیں۔
رہا ان کا یہ دعویٰ کہ سیف بن عمر بن سبا کی خبروں کا واحد مصدر ہے، یہ بات غلط ہے۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اس کے علاوہ بھی روایات نقل کی ہیں،جو دوسری اسناد کے ساتھ ہیں۔ جن سے ابن سبا کا وجود ثابت ہوتا ہے، اور وہ
[1] تاریخ مدینۃ دمشق (مخطوط) ورقہ ۱۶۷۔