کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 93
کہتا ہے :’’ ابن سبا ہی ابن سوداء ہے۔ جب کہ بغدادی ان دونوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’ یہ دو مختلف شخص ہیں۔‘‘
اور طبری کے مطابق ابن سبا صنعاء سے تعلق رکھتا ہے جب کہ بغدادی کے مطابق وہ’’ حمیر ‘‘ کا باشندہ ہے۔[1]
ایسے فرید لنڈر اپنی تحقیق کے آخر میں خلاصہ کے طور پر ابن سبا کے انکار پر ختم کرتا ہے۔ وہ ان اسلامی مصادر کا؛ جن میں ابن سبا کا تذکرہ ملتا ہے ؛ تقابلی جائزہ لینے کے بعد کہتا ہے :
’’ اس لیے کہ بے شک ابن سبا کچھ بھی نہیں ہے، سوائے اس کے کہ سیف کے دل میں کوئی معاملہ ہے ؛ جس سے وہ صحابہ پر سے فتنہ کے الزام کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اوروہ کہنا چاہتا ہے کہ ’’یہ فتنہ یہودیت سے اسلام میں سرائیت کر آیا ہے۔ ‘‘[2]
۲۔ اٹالین مستشرق : کایٹانی: (۱۹۲۶ء): [3]
یہ ان مستشرقین میں سے ہے جو سیف بن عمرکی روایات کا انکار کرتے ہیں، اور اس پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے : ’’ان روایات کا بودا پن کئی وجوہات سے صاف ظاہر ہے :
اس نے کہا ہے کہ قدیم اور موثوق مصادر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں عبد اللہ بن سبا کے وجود سے لا علمی برت رہے ہیں۔ وہ کہتا ہے :
’’مدنی درس گاہ، اور شامی اور مصری الاصل روایات حضرت عثمان کے دور میں فتنہ برپا کرنے کو سیاسی؛ إداری ؛ اور اقتصادی رنگ دیتی ہیں اوراس میں کوئی دینی بنیاد ذکر نہیں کی گئی۔، جیسے کہ کایٹانی کے نزدیک یہ بات بعید بھی ہے کہ اس تاریخی دور میں عرب فاتحین کے ہاں اس طرح کا دینی اضطراب پیدا ہوا ہو جس کی نسبت عبد اللہ بن سبا کی طرف ہو؛ بلکہ وہ اسے بالکل محال سمجھتا ہے۔ ‘‘
عمومی طور پر ابن سبا کے متعلق کایٹانی کے موقف کا خلاصہ یہ ہے :’’ وہ اس بات کا انکار کرتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں ابن سبا کا کوئی ایسا دینی کردار ہو؛جو سیف بن عمر نے اس کی طرف مسلمانوں کے درمیان فاسد عقائد پھیلانے، اور سبائی فرقہ ایجاد کرنے کے بارے میں منسوب کیا ہے۔ اور یہ بات بعید نہیں ہے کہ وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں کو ئی عبد اللہ بن سبا نام کا کوئی آدمی ہو، جو سیاسی رنگ کو اچھالنا چاہتا ہو۔ لیکن اس کی طرف جو دینی کردار
[1] مقدمہ کتاب: ’’ عبد اللّٰه بن سبا و أساطیر أخری بقلم ڈاکٹر حامد حفنی ص ۲۱۔
[2] جرمن مستشرق ہے۔ اس نے فرق اور ادیان کا بڑے اہتمام سے مطالعہ کیاہے۔ اس کی تألیفات میں سے :’’ حسن الطالع فی الإسلام ‘‘؛ ’’الیہودیۃ‘‘؛ الیہودیۃ فی الجزیرۃالعربیۃ ‘‘- ’’ مذاہب الشیعۃ ‘‘اور مجلہ آشوریہ میں عبد اللہ بن سبا پر ایک تحقیقی مقالہ ہے۔ نجیب العقیقی : المستشرقون ۳/۹۹۵۔
[3] یہ مجلہ جرمن میں جرمنی زبان میں شائع ہوتا تھا۔ اور فرید لنڈر کا مضمون ابن سبا کے متعلق ۱۹۰۹ء اور ۱۹۱۰ ء میں شائع ہوا ہے۔ دیکھو: سلیمان بن حمد العودۃ کی تحقیق: ’’ عبد اللّٰه بن سبا و أثرہ في إحداث الفتنۃ في صدر الإسلام ‘‘ص ۶۵۔
[4] سلیمان العودۃ : عبد اللّٰه بن سبا ؛۶۵۔