کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 91
جھگڑے چل رہے تھے۔ شیعہ مخالف دوسروں فرقوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس طرح اس مذہب کی بنیادوں میں یہودی عنصر داخل کردیں تاکہ ان کے خلاف سازش کرنا اور ان پر تنقید کرنا موثر ہوجائے۔‘‘ [1]
۲۔ ڈاکٹر علی النشار :
وجودِابن سبا کا انکارکرنے میں اور اسے وہمی شخصیت قرار دینے میں طہ حسین کے بعد ڈاکٹر علی النشار کا نمبر آتا ہے۔
تاریخی مصادر اور شیعہ و سنی محققین کی تحریروں سے نقول جمع کرنے کے بعد کہتا ہے :
’’ اس بات کا احتمال ہے کہ عبد اللہ بن سبا کی شخصیت ایک گھڑی ہوئی شخصیت ہو، یا ابن یاسر کی شخصیت کا رمز ہو۔ … اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ عبد اللہ بن سباء فقط عمار بن یاسر کے نام سے پھوٹی ہوئی [ تصوراتی] شخصیت ہو۔‘‘[2]
نیز کہتا ہے: ’’ یہ اس سے بھی باریک معنی میں میں یہ کہہ سکتاہوں کہ یقینا یہ بات ہی راجح ہوسکتی ہے کہ عبد اللہ بن سبا عمار بن یاسر ہی ہو۔اور یہ بھی راجح ہے کہ نواصب نے عمار بن یاسر پر وہ تمام آراء گھڑلیں،جنہیں وہ جانتے بھی نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے کبھی یہ کہا ہے۔‘‘ [3]
اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ نشار کہ منہ سے یہ باتیں نکلیں، اس لیے کہ وہ شیعہ (قلم کار )ڈاکٹر وردی سے(جس نے سب سے پہلے ابن سبا کے وجود کا انکار کیا؛ اوریہ دعویٰ کیا کہ ابن سبا عمار بن یاسر ہی ہے)بہت ہی زیادہ متاثر ہے۔
یہ نشار ہے، جو علی وردی اور اس کے افکار پر اپنے تعجب کا اظہار کررہا ہے، وہ کہتا ہے :
’’ مگرعصر حاضرکا ایک بڑا شیعہ کاتب استاذ ڈاکٹر علی الوردی؛ ہمارے لیے عبد اللہ بن سبا کے قصہ کی ایک نادر اور محققانہ تحلیل [تجزیہ]پیش کرتے ہیں۔‘‘ [4]
۳۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد:
جن شیعہ اہل قلم نے عبد اللہ بن سبا کی شخصیت کا انکار کیا ہے، ان کی تحریروں سے متاثر ہونے والوں میں سے ایک ڈاکٹر حامد حفنی داؤدبھی ہے۔ اس نے کتاب ’’ عبد اللّٰه بن سبا و أساطیر أخری ‘‘کے مصری طبع کا مقدمہ لکھا ہے۔ جس میں اس نے اس کتاب اور اس کے مؤلف پر اپنے تعجب کا اظہار کیا ہے ؛ وہ کہتا ہے :
’’آخر میں جوبات مجھے خوش کن معلوم ہورہی ہے، میں اس جلیل کتاب پر اور اس کے مصنف علامہ محقق مرتضیٰ عسکری پر اپنے تعجب کا اظہار کروں۔‘‘[5]
[1] د/کامل الشیبی : الصلۃ بین التصوف و بین التشیع، ص ۹۵۔
[2] تاریخ الامامیۃ واسلافہم من الشیعۃ ، ص: ۹۵۔
[3] الفتنۃ الکبری ص ۱۲۳۔