کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 90
لوگوں کوحضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی دعوت دیتے۔
۴۔ عمار بن یاسر حضر ت عثمان ( رضی اللہ عنہما ) کے دور میں مصر گئے ؛ اور لوگوں کو ابھارنے لگے …یہ خبر ابن سبا کے بارے میں اس مشہور خبر کے مشابہ ہے کہ اس نے مصر کو اپنا ٹھکانہ بنایا اور اپنی دعوت کا مرکز ’’فسطاط ‘‘(ایک علاقہ کا نام ہے)کو بنایا اور وہاں سے اپنے انصار کے ساتھ مراسلت شروع کی۔[1]
ان کے علاوہ اور بھی ایسی خرافات ہیں جن سے ہم ورق کالے نہیں کرنا چاہتے، اتنا ہی کافی ہے۔
۶۔ عبداللہ بن الفیاض :
عبد اللہ بن سبا کے وجود کے منکرین کے ساتھ عبد اللہ بن فیاض بھی شریک ہے۔ وہ پوچھتا ہے کہ: کیا ابن سبا واقعی حقیقت میں موجود تھا یا کہ اس کی شخصیت ایک خیالی تصور ہے؟ پھروہ خود ہی جواب دیتا ہے، اور کہتا ہے : ’’ یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ابن سبا حقیقت سے زیادہ تصور کے قریب ہے۔ اور اگر فرض کیجیے کہ اس کا کوئی کردار تھا تو اس کے کردار میں دینی اور سیاسی اسباب کی وجہ سے بہت زیادہ مبالغہ کیاگیا ہے۔‘‘ [2]
ثانیاً:… غیر شیعہ نئے اہل قلم میں وجود ِابن سبا کے منکرین
۱۔طہ حسین:
طہ حسین ان نئے اہل قلم میں سر فہرست ہے جو ابن سبا کے وجود میں شک ہی نہیں کرتے، بلکہ سرے سے اس کے وجود کاانکار کرتے ہیں۔ طہ حسین اپنی کتاب ’’الفتنۃ الکبری ‘‘میں کہتا ہے :
’’ مجھے اس بات کا شدت سے خیال آتا ہے کہ جو لوگ ابن سبا کے معاملے کو اس حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، وہ اپنے نفس اور تاریخ پر بہت بڑا ظلم کرتے ہیں۔ سب سے پہلی چیز جو ہم محسوس کرتے ہیں کہ وہ اہم تاریخی مصادر جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ بیان کرتے ہیں، ان میں ابن سبا کا کوئی ذکر ہی نہیں ملتا۔‘‘[3]
طہ حسین اپنی کتاب ’’ علی و بنوہ‘‘(علی اور اس کے بیٹے ) میں کھل کر ابن سبا کے وجود کا انکار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے :
’’سب سے کم جو چیز اس پر دلالت کرتی ہے، وہ مؤرخین کا جنگ صفین میں ’’سبیئہ‘‘ اور عبداللہ بن سوداء کے ذکرسے اعراض کرنا ہے۔بیشک سبائیت اور اس کا موجد عبداللہ بن سوداء کے متعلق افکارخود ساختہ ہیں۔انہیں بعد کے دور میں اس وقت گھڑا گیا جب شیعہ اور دوسرے مسلمان فرقوں کے درمیان
[1] مقدمہ ’’ عبداللّٰه بن سبا و أساطیر أخری‘‘ بقلم : محمد جواد مغنیہ ۱/۱۲۔
[2] وعاظ السلاطین ص ۲۷۳ نقلاً عن سلیمان العودۃ : عبد اللّٰه بن سبا ص ۹۰۔