کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 89
اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ اس کی رائے یہ ہے کہ ابن سبا ایک افسانو ی اور خیالی شخصیت ہے جسے سیف بن عمر نے کردار کے طور پر گھڑا ہے۔ وہ کہتا ہے : ’’اس سیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسے صحابہ گھڑ لیے تھے جن کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اور ایسے اس نے اپنی طرف سے کچھ تابعین اور ان کے دوسرے لوگ ایجاد کرلیے تھے۔ ایسے ہی ان کی زبانی جھوٹی احادیث اور اخبار گھڑنی شروع کیں۔ انہی میں سے ایک نامور کردار جس کی شخصیت کو بھی گھڑا، اور نام کو بھی اور اس کے کردار بھی گھڑ ے اور ان کو آپس میں جوڑا ؛ وہ کردار ہے افسانوی شخصیت ’’ عبد اللہ بن سبا ‘‘ کا۔ اسی پر ہر اس شخص نے جس نے شیعہ کی طرف نسبت کی ؛ جنہیں حقیقت کا کوئی علم نہیں ہے وہ اس کے بارے میں جہالت و غطلی؛ منافقت اور بہتان تراشی سے کلام کرنے لگے۔[1] ۴- ۵: ڈاکٹر علی الوردی اور ڈاکٹر کامل مصطفی شیبی : یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے عبد اللہ بن سبا کے وجود کا انکار کیا ہے۔ ڈاکٹر علی الوردی نے اپنی کتاب ’’ وعاظ السلاطین ‘‘ میں یہ انکار کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے نظریات سے ڈاکٹر کامل شیبی بھی اپنی کتاب ’’الصلۃ بین التصوف والتشیع ‘‘میں متاثر نظر آتے ہیں۔ وردی کہتاہے : ’’ مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ ابن سبا کی کہانی میں اول سے آخر تک بڑے مضبوط ربط، دل کش تصویر پیش کی گئی ہے۔ ‘‘[2] وردی اور اس کی اتباع میں شیبی ان دونوں نے کوشش کی ہے کہ ابن سبا اصل میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کی یہ ناکام کوشش اصل میں ابن سبا کی شخصیت میں علت پیدا کرنے کے لیے کی گئی ہے، جس کا ذکر تاریخی اور فرق کے مصادر میں آیاہے۔ اور یہ دونوں اس کے وجود کا انکار کررہے ہیں۔ شیبی کہتا ہے : ’’ ڈاکٹر علی وردی کے پاس وہ دلائل موجود ہیں کہ یہ دونوں آدمی ( عمار بن یاسر اور عبد اللہ بن سبا ) ایک ہی شخص ہیں، ان دلائل میں سے : ۱۔ ابن سبا کو ابن سوداء کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے عمار کی کنیت بھی ابن سوداء تھی۔ ۲۔ وہ یمانی باپ سے تھا۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ سبا کی اولاد میں سے تھا۔ پس ہر یمانی کو ابن سبا کہنا درست ہوا۔ ۳۔ اوراس کے علاوہ عمار حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت ہی محبت کرتے تھے اور ان کے لیے دعا کرتے رہتے اور جگہ جگہ