کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 88
نے اپنی کتابوں میں ایسی روایات نقل کی ہیں۔
پھر عسکری نے اس طرح کی ایک اور فصل قائم کی ہے ؛ جس میں اس نے ’’فِرق ‘‘اور مقالات نگاروں سے ابن سبا کے متعلق روایات نقل کی ہیں ؛ اس فصل کا نام رکھا ہے : ’’عبد اللّٰه بن سبا فی کتب المقالات۔ ‘‘
جیسے اس نے کتب احادیث میں ابن سبا کے متعلق وار د ہونے والی روایات کو جھٹلایا تھا ؛ ایسے ہی ’’فرق اور مقالات ‘‘ کی کتابوں میں وارد ہونے والی روایات کو جھٹلانے میں بھی جھجک یاشرم محسوس نہیں کی۔
پھر اس کے بعد ایک فصل قائم کی ہے ’’ حقیقۃ ابن سباو السبئیۃ‘‘ ’’ابن سبا اور سبائیت کی حقیقت۔‘‘
اس میں عسکری ابن سبا کے وجود کا ہی انکار کرتا ہے۔ یہی اس کتاب کے لکھے جانے کا اصل ہدف ہے۔ وہ کہتا ہے:’’ سبائیت کو سبا بن یشجب، یمنی قبائل کی اولاد کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا جاتا ہے۔ صحاح میں حدیث کے راویوں کی بہت بڑی تعداد کو یہ لقب ملا، اور وہ اسی لقب سے بلاد مغرب اور یمن میں تیسری صدی ہجری کے وسط تک مشہور ہوئے۔
پھر بڑھتے بڑھتے یہ ایک طعنہ بن گیا، جس سے بعض شیعان ِعلی ؛ اور مختار کے ان ساتھیوں پر طعن کیا جانے لگا جو اس سبائیت کے قبیلہ سے تھے۔ پھر ان قبائل سے شیعان ِعلی پر اس نام کا اطلاق کیا جانے لگا۔ پھر سیف بن عمرنے سبائیت کی کہانی گھڑ لی، اور وہاں سے طبری نے اس روایت کو لیا۔ اور طبری سے باقی مؤرخین نے لیا۔
پھر یہ کہانی لوگوں کی زبان پر چڑھ گئی اور عام ہوتی گئی۔اور لوگوں کی زبانوں سے ’’ الملل و النحل ‘‘ اور ’’مقالات ‘‘ پر لکھنے والوں نے یہ روایات لے لیں۔
آخر کا ر سبائیت ایک مذہبی فرقہ کی حیثیت سے مشہور ہوگئی ؛ اور قبائل سبا کی طرف اس کے منسوب ہونے کو بھلا دیاگیا۔ جب کہ ابن سبا تو عبد اللہ بن وہب سبئی نہروان میں خوارج کا سردارتھا۔ اور ابن سوداء ایک مذاق ہے، یہ اس کا ٹھٹھہ اڑایا جاتا ہے جس کی ماں کالی ہو۔
ان کہانیوں کا جال ؛ جن کا ابھی روایات میں ذکر گزرا؛ تین ناموں سے بنتا ہے :
۱۔ عبداللہ بن سبا
۲۔ عبد اللہ بن سوداء
۳۔ السبیئۃ والسبائیۃ ( سبیئت اور سبائیت )
۳۔ محمد جواد مغنیہ :
یہ ان معاصر شیعہ علماء اور لوگوں میں سے ہے جو ابن سبا کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ محمد جواد مغنیہ نے عسکری کی کتاب ’’ عبد اللّٰه بن سبا وأساطیر أخری ‘‘ کا مقدمہ لکھا ہے۔ اس مقدمہ میں اس نے عبداللہ بن سبا کے متعلق
[1] ’’رجال الکشی ‘‘کو باقی جن شیعہ علماء نے ثقہ کہا اور معتمد علیہ مانا ہے ‘ اس کے بارے میں آخر میں ’’ملحق بتوثیق مصادر الرافضۃ ‘‘ ایک خاص باب ہے ‘ وہاں دیکھ لیں۔