کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 86
ہیں، اوروہ اس پر لعنت کرتی ہیں۔‘‘
وہ کہتا ہے : ’’رہا عبد اللہ بن سبا جسے شیعہ کے ساتھ چپکایا جاتا ہے، یا شیعہ اس کے ساتھ چپکائے جاتے ہیں، تو تمام کتب شیعہ اس پر اپنی طرف سے لعنت کرتی ہیں، اور اس سے براء ت کا اظہار کرتی ہیں۔ اور سب سے ہلکا کلمہ جو شیعہ کتب اس کے بارے میں کہتی ہیں، اور اس کے حالات ِزندگی بیان کرتے ہوئے اس پر اکتفا کیا جاتا ہے، اس کا نام لیتے ہوئے ایسے کہا جاتا ہے : ’’ عبداللہ بن سبا کا نام لینے کے بجائے میں اس پر لعنت کرتا ہوں۔‘‘ دیکھیے ’’رجال ابو علی وغیرہ۔ ‘‘ اس بنیاد پر یہ بات کچھ بعید نہیں ہے کہ قائل کی رائے یہ ہوکہ عبد اللہ بن سبا اوراس جیسے لوگ خرافات باتیں ہیں، جنہیں قصہ گو، اوررات کو مجلس لگانے والے لوگوں نے گھڑ لیا ہے۔ کیونکہ عباسی اور اموی دور میں عیاشی اور نعمت کوشی اپنے عروج پر تھیں ؛ اور جب بھی عیش پرستی بڑھ جاتی ہے ؛ اور لہو ولعب کے اسباب متوفر ہوتے ہیں تو باتیں گھڑنے اور ان کو رواج دینے کے لیے میدان کھل جاتے ہیں۔[1]
۲۔ مرتضی عسکری :
شیعہ میں سب سے زیادہ عبد اللہ بن سبا کے بارے میں سب سے زیادہ جوش و جذبہ اور حمیت رکھنے والا یہی شخص ہے۔ اس کا خیال ہے کہ عبد اللہ بن سبا ایک کہانی ہے جسے سیف بن عمر نے گھڑل، اور وہیں سے طبری نے اخذ کیا ہے۔
اس نے عبداللہ بن سبا کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی ہے،اور اس کا نام رکھاہے: (( عبد اللّٰه بن سبا و أساطیر أخری ))’’عبد اللہ بن سبا اور دوسری کہانیاں ‘‘… اس کتاب کی دو جلدیں ہیں۔ پہلی جلد کے ۳۴۰ صفحے ہیں، اور دوسری جلد کے ۴۲۶ صفحات ہیں۔
وہ پہلی جلد میں عبد اللہ بن سبا کے متعلق بیان کرتا ہے کہ یہ ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے، پھر وہ اپنے گمان کے مطابق اس کہانی کے گھڑے جانے کی حقیقت بیان کرتا ہے۔
اس نے بعض نئے مسلمان اور مستشرق کاتبین سے عبد اللہ بن سبا کے متعلق نقل کرتے ہوئے قصہ لکھا ہے۔اور یہ گمان کیا ہے کہ ان تمام نے یہ کہانی طبری سے نقل کی ہے، خواہ انہوں نے اس کی صراحت کی ہے یا نہیں۔ اور کہا ہے کہ طبری نے یہ کہانی سیف بن عمر سے لی ہے۔ اسے عسکری ان لوگوں میں شمار کرتا ہے جنہوں نے یہ کہانی گھڑی ہے۔
پھر وہ اس جزء میں بیان کرتاہے : ’’سیف بن عمر کی کتب اور اس کی احادیث کی قیمت کے بارے میں۔ ‘‘ اور اس بحث کا خلاصہ یہ پیش کیا ہے کہ سیف بن عمر کی روایات ناقابل قبول ہیں۔ اور یہ کہ سیف بن عمر نے بہت ساری وہ روایات گھڑلی ہیں جو اس سے تاریخ اسلامی کے اہم مصادر میں نقل کی گئی ہیں۔ اور اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے میں اس کا بہت بڑا اثر تھا۔ پھر بعض ان تاریخی واقعات کو بطور شہادت کے پیش کرتا ہے جن کے بارے میں اس کاگمان یہ ہے
[1] فرق الشیعۃ ص ۲۲۔