کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 85
متعلق پیش کی جارہی ہے۔ یہ نص بھی ہم رافضی علماء کی کتابوں سے ہی پیش کریں گے۔ تاکہ ابن سبا کے وجود کی شہرت کا علم اہل ِ سنت اور رافضی (دونوں طبقوں کے ) علماء کی کتابوں سے ہوجائے۔
تیسری صدی ہجری کا مشہور رافضی عالم نو بختی کہتا ہے :
’’ علی علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے علماء کی ایک جماعت نے حکایت نقل کی ہے کہ:’’ ابن سبا یہودی تھا، اس نے اسلام قبول کیا، اور علی علیہ السلام سے دوستی (ولایت علی) کرلی۔ جب وہ یہودی تھا تویوشع بن نون علیہ السلام کے متعلق کہا کرتا تھاکہ موسیٰ کے بعد انہی کی طرح[نبی] ہیں۔یہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی علیہ السلام کی امامت فرض ہونے کے متعلق قول گھڑ کر مشہور کیا۔ اور ان کے دشمنوں سے براء ت کا اظہار کیا اور ان کے مخالفین کا پردہ چاک کیا۔ بس یہیں سے شیعہ مخالفین نے کہا ہے کہ:’’ رافضیت کی اصل یہودیت سے مأخوذ ہے۔ ‘‘[1]
ابن سبا کے وجود کے منکرین:
بعض معاصر شیعہ اور بعض اہل سنت کی طرف نسبت رکھنے والے نئے لکھاری اور مستشرقین کا ایک گروہ ابن سبا کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔
مؤرخین اور اصحاب مقالات ؛ اور ان کے علاوہ دیگر محققین نے جو کچھ اخبار اور روایات میں ابن سبا اور اسلامی ریاست کے ابتدائی دور میں اس کے تاریخی کردار اور فرقہ سبائیت کی ایجاد میں اس کے کردار کے متعلق لکھا ہے؛ یہ فقط مختلف قسم کی روایات اور خبریں ہیں، جنہیں شیعہ دشمنوں نے گھڑ لیا ہے۔ تاکہ وہ ان کی کردار کشی کرسکیں، اور ان کے مذہب کو یہودیت کی طرف منسوب کر سکیں۔ ان کا خیال ہے کہ ابن سبا فقط ایک افسانوی [تصوراتی ] شخصیت ہے۔ جس کا کوئی تاریخی وجود نہیں ہے۔ آنے والے صفحات میں چند ان مقالہ نگاروں،اورکالم نویس لوگوں کا بیان ہوگا جو ابن سبا کے وجود کے منکر ہیں۔
اولاً:… شیعہ میں ابن سبا کے وجود کے منکرین
۱۔ محمد حسین کاشف الغطاء :
عراقی شیعہ عالم محمد حسین کاشف الغطاء ابن سبا کے وجود کے انکار کی طرف میلان رکھتاہے۔ اس کی رائے یہ ہے کہ عبد اللہ بن سبا صرف ایک خرافات ہے، جو قصہ گوؤں نے اموی اور عباسی دور میں گھڑ لیا۔ لیکن عجیب وغریب معاملہ یہ ہے کہ یہ بات اس نے اس اعتراف کے بعد کہی ہے کہ :’’ قدیم شیعہ کتابوں نے ابن سبا کے حالات زندگی بیان کیے
[1] تاریخ طبری ۴/۳۲۶-۳۲۷۔
[2] دیکھو: تاریخ الطبری ۴/۳۴۰؛ والکامل فی التاریخ ۳/۷۷؛ البدایۃ والنہایۃ ۷/۱۶۷۔