کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 84
ابن سبا کے تعین میں اختلاف
ابن سبا کی نسبت میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ عبد اللہ بن سبا نے اپنی اصلیت کو اپنے معاصرین پر مکمل طور پر چھپا کر رکھا تھا۔ نہ ہی اس کے نام کا پتہ چلتا تھا اور نہ ہی شہر کا۔ اس لیے کہ وہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوا ؛ اسلام کا نام استعمال کرنا تو صرف ایک مکارانہ چال تھی تاکہ وہ مسلمانوں کو اپنی سازشوں کا شکار کرسکے۔
یہی وجہ ہے کہ بصرہ پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنر عبد اللہ بن عامر نے جب اس سے پوچھا تم کون ہو؟ تو وہ کہنے لگا:’’ وہ اہل کتاب کا ایک آدمی ہے ؛ جو اسلام قبول کرنے میں اور آپ کا پڑ وسی بن کر رہنے میں رغبت رکھتا ہے۔ ‘‘[1]
میری رائے کے مطابق یہ مکمل طور پر اسرار رہنا‘ جو ابن سبا نے اپنے نفس کے اختیار کر لیا تھا، یہی ایک بہت بڑا سبب ہے کہ تاریخ نگار اور محقق علماء کرام میں اس کی نسبت اختلاف واقع ہوا ہے۔اور یہ بھی کوئی بعید نہیں ہے کہ ابن سبا نے وہ تمام نام استعمال کیے ہوں جو مؤرخین نے ذکر کیے ہیں۔ بلکہ اس نے اپنے ان جرائم کو پردہ میں رکھنے کے لیے بعض دوسرے نام بھی استعمال کیے ہوں گے جو اس نے اسلامی ریاست میں اپنی مکاریوں سے انجام دیے تھے۔
ابن سباء اور مسلمانوں میں اس کا خروج:
تاریخ طبری ؛ ابن اثیر اوران کے علاوہ دوسری کتب تاریخ میں ہے:
’’ابن سبا اہل صنعاء کا یہودی تھا۔ اس نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلام قبول کیا۔ پھر وہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے ارادہ سے مختلف شہروں میں گھومنے لگا۔ اس نے حجاز سے اپنا سفر شروع کیا پھر بصرہ گیا، وہاں سے کوفہ گیا؛ پھر شام گیا لیکن وہ کوئی فتنہ بپا کرنے پر قادر نہ ہوسکا۔ پھر وہ مصر گیا، اوروہاں اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ اور اہل مصر کے لیے اس نے وصیت اور رجعت کے عقیدے گھڑے۔ مصریوں نے اس سے یہ عقیدے قبول کیے۔ اور وہاں پر اس کے لیے وہ مددگار لوگ پیدا ہوگئے جنہیں اس نے اپنی فاسد آراء سے گمراہ کیا تھا۔[2]
ابن سبا کی خبریں اور جو کچھ بدعات اس نے دین میں پیدا کیں، اور لوگوں میں اپنی فاسد آراء پھیلائیں ؛ جن سے اس نے مسلمانوں کو دھوکا دیا ؛ کتب تاریخ اور فرق میں اہل سنت اور رافضی علماء نے نقل کی ہیں۔ یہ موقع ابن سبا کے پھیلائے ہوئے عقائد بیان کرنے کا نہیں، وہ مکمل تفصیل آگے آرہی ہے؛ ان شاء اللہ۔
یہاں پر صرف ایک نص ابن سبا کے وجود اورمسلمانوں میں اس کے فاسد عقائد پھیلانے میں اس کے کردار کے
[1] البدایہ والنہایہ کے بعض نسخوں میں ’’رومیاً ‘‘ کے بجائے ’’ذمیاً‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ دیکھو: البدایۃ والنہایۃ طبع دوم (۷/۱۷۳) یقینا اصل میں یہ کلمہ ’’ذمیاً‘‘ ہی ہے ؛ اور نسخ کرنے والے کی غلطی سے ’’رومیاً‘‘ ہوگیاہے۔ ابن سبا کے ذمی ہونے میں کسی کو شک نہیں ہے۔ اس طرح ابن کثیر کے حوالے سے پیدا ہونے والا اعتراض خود بخود ختم ہوگیا۔
[2] البیان والتبیین۳/۸۱۔
[3] دیکھو: المعارف ص ۶۲۲۔
[4] دیکھو: تاریخ الطبری : ۴/ ۳۴۰۔
[5] دیکھو: مقالات الاسلامیین ۱/ ۸۶۔
[6] دیکھو: الملل والنحل ۱/۱۷۴۔
[7] دیکھو: مجموع الفتاوی ۲۸/۴۸۳۔
[8] دیکھو: مذاہب الاسلامیین ۲/۴۳۔
[9] دیکھو: المقالات والفرق ص ۲۰۔
[10] دیکھو: فرق الشیعۃ، ص ۲۲۔
[11] دیکھو: حبیب البغدادی المحبر ص ۳۰۸۔
[12] التبصرہ فی الدین ص ۱۲۴۔