کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 78
ہوگیا۔‘‘[1]
جب کہ رافضہ کا ایسا عقیدہ نہیں ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کیسانیہ رافضی فرقوں میں سے نہیں ہیں۔ واللہ اعلم
اس طرح ہم شہرستانی کے قول کودوسرے فرق اور مقالات والوں پر ترجیح دے سکتے ہیں کہ اس نے ان فرقوں کو رافضیوں میں شمار نہیں کیا۔ بلکہ شیعہ کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے :
۱۔ کیسانیہ ۲۔ زیدیہ ۳۔ امامیہ ۴۔ غالی ۵۔ اور اسماعیلیہ
پھر ان میں سے ہر ایک فرقہ کی قسمیں علیحدہ علیحدہ ذکر کی ہیں، اس لیے میں رافضیوں کی تقسیم کے لیے شہرستانی کے قول پر اعتماد کرتا ہوں۔ شہرستانی نے امامیہ اور رافضہ کو سات قسموں میں تقسیم کیا ہے :
پہلا :… باقریہ، جعفریہ، واقفہ:
یہ لوگ محمد الباقر[2] بن علی بن زین العابدین کے پیرو کار ہیں۔ اور ان کا بیٹا جعفر الصادق ہے۔جنہیں وہ امام مانتے ہیں۔ اور ان کے والد زین العابدین کوبھی اپنا امام مانتے ہیں۔ بس یہ کہ ان میں سے بعض لوگوں نے ان میں سے ایک کے امام ہونے کے بارے میں مذہب اختیار کیا ہے ؛لیکن امامت کو ان کی اولاد میں منتقل نہیں کیا۔ اور بعض نے امامت کا سلسلہ ان کی اولاد کے لیے بھی جاری رکھا ہے۔ اسی لیے شیعہ میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے امام باقر پر پہنچ کر توقف (خاموشی ) اختیار کرتے ہوئے امام باقر کے لوٹ کر آنے کا کہا ہے؛بالکل ایسے ہی جیسا کہ ابو عبد اللہ جعفر بن محمد الصادق کی امامت ماننے والوں نے ان کے لوٹ کر آنے کا کہا ہے۔
دوسرا :… ناؤوسیہ :
یہ ایک ناؤوس نامی آدمی کے پیروکار ہیں۔[3]
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لوگ ’’ ناؤوس[4] ‘‘ نامی گاؤں کی طرف منسوب ہیں۔
[1] ابو الحسن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ المعروف بزین العابدین ؛ امامیہ کے ہاں اثنا عشریہ ائمہ میں سے ایک ہیں اور بڑے تابعین میں سے ہیں۔ ان کے فضائل اعداد و شمار سے زیادہ ہیں۔ ۳۸ہجری میں پیدا ہوئے ؛ اور ۹۴ ہجری میں وفات پائی۔ دیکھو: ابن خلکان : وفیات الأعیان (۳/۲۶۶-۲۶۹)۔
[2] الملل و النحل ۱/ ۱۶۵۔
[3] المفید : أوائل المقالات ص ۴۴۔
[4] محمد بن حنفیہ کااصل نسب محمد بن علی بن ابو طالب ہے۔ انہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے شیعہ نے محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور کیا ‘ اور بڑے بڑے اہل ِ سنت بھی اس دھوکا کا شکار ہوگئے حالانکہ دنیابھر میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو یہ بات نہ جانتا ہوکہ نسب والد کی طرف سے چلتا ہے ‘ والدہ کی طرف سے نہیں ؛ اور والدہ کی طرف نسبت سوائے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے کسی اور کے لیے جائز نہیں۔ ازمترجم۔