کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 75
انہوں نے کہا : ’’ہم آپ کی گواہی قبول نہیں کریں گے، اس لیے کہ آپ رافضی ہیں، تو (عمار) روپڑے۔ انہوں ( ابن ابی لیلیٰ)نے کہا : کیا تم روتے ہو؟، رافضیت سے براء ت کا اظہار کرتے ہوکہ ہمارے بھائیوں میں سے ہو جاؤ؟۔‘‘ (عمار) نے کہا :’’ نہیں ؛ بلکہ میں اس بات پر روتا ہوں کہ آپ نے مجھے ایک ایسے عالی مقام کی طرف منسوب کیا ہے جس کا اہل میں نہیں ہوں، اور میں تمہارے اس اتنے بڑے جھوٹ کی وجہ سے رورہا ہوں کہ تم نے میرے نام سے ہٹ کر مجھے دوسرا نام دیا ہے۔ ‘‘[1]
ایک اور رافضی کا کہنا ہے : ’’ عقیدہ امامت ایمان میں شامل ہے۔ اور رافضیت ایسا پکا دین ہے جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں ہے۔ علی کے دشمنوں سے دشمنی رکھنے میں نہ ہی کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کوئی حرج۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے شرف سے سرفراز کیا کہ میں ان کے بندوں میں سے ہوں، او ر ان کی محبت میرے خون اور گوشت میں ملی ہوئی ہے۔ ولاء اور براء کے دین کے علاوہ کوئی چیز اس کے بدلہ میں نہیں چاہیے۔ اور نہ ہی اس سے ہٹ کر کسی اور راہ پر زندگی بھر چلوں گا۔[2]
دوسری بحث : … رافضیوں کے مشہور فرقے
اصحاب الفرق اور مقالات نے رافضی فرقوں کے بارے میں بہت اختلاف کیا ہے۔ اور اس کا سبب بعض لوگوں کے ہاں رافضیت کے مفہوم میں وسعت ہے۔ وہ اس نام کے تحت تمام شیعہ فرقوں کو شمار کرتے ہیں۔ جیساکہ بغدادی نے کیا ہے، انہوں نے رافضہ کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے :
۱۔ زیدیہ ۲۔امامیہ ۳۔ کیسانیہ ۴۔ غالی
پھر ان میں سے ہر ایک فرقہ کے نیچے بہت سارے فرقے ذکر کیے ہیں۔[3]اور اسفرائینی نے بھی ایسے ہی کیا ہے۔[4] نیز امام رازی نے بھی۔ [5]
صرف یہ کہ ان دونوں نے غالی فرقہ کو رافضیوں میں شمار نہیں کیا۔
دوسری جانب بعض اصحاب الفرق اور مقالات اس تقسیم کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ سابقہ فرقے شیعہ فرقے ہیں۔ یہ رافضی یا امامی نہیں ہیں، جیسا کہ ان کے بارے میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بھی انہی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے۔ ان لوگوں میں سے شہرستانی[6] اور اشعری [7] بھی ہے۔ صرف یہ کہ شہرستانی نے کیسانیہ کو رافضی فرقوں میں شمار کیا ہے۔
[1] علی بن یونس العاملی النباطی : الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم ۳/ ۷۶۔
[2] أعیان الشیعۃ ۱/ ۲۰-۲۱۔
[3] ابو عبداللہ جعفر الصادق بن محمد بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم۔ امامیہ کے نزدیک بارہ اماموں میں سے ایک ہیں۔ اور سادات ِ اہل بیت میں سے تھے۔اپنی گفتگو میں کھرے پن کی وجہ سے صادق کا لقب ملا۔ آپ کے فضائل تذکرہ کرنے سے زیادہ ہیں۔ ۸۰ہجری میں پیدا ہوئے، اور شوال ۱۴۸ ہجری میں وفات پائی۔ ابن خلکان : وفیات الأعیان ۱/۳۲۷۔
[4] علی بن یونس العاملی النباطی : الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم ۳/ ۷۶۔
[5] عمار بن معاویہ الدہنی ؛ ابو معاویہ البلخی ؛ ابن حجر نے کہا ہے : ’’ سچا ہے، شیعیت کی باتیں کہتا ہے۔ تقریب ص ۴۰۸۔
[6] محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ اور ابی لیلیٰ کا نام یسار تھا۔ جو احیحہ بن جلاح کی اولاد میں سے ہے۔ بنی امیہ کے قاضی رہے، اور بنی عباس کے بھی۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے پہلے اپنی رائے سے فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ۱۴۸ ہجری میں انتقال ہوا۔ ابو جعفر منصور کے ہاں قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز ہوئے۔ ابن الندیم الفہرست ص ۲۸۶۔