کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 73
سو کہا گیا ہے کہ زیدبن علی کے اس قول : ’’ رفضتمونی‘‘… ’’تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘کی وجہ سے ان کا نام ’’رافضہ‘‘ پڑ گیا۔ [1] امام رازی کہتے ہیں : ’’ بے شک ان کا نام رافضہ اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ زید بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ہشام بن عبد الملک کے خلاف خروج کیا تو ان کے لشکر نے سیّدناابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر طعن کرنا شروع کیا۔ انہوں نے اس حرکت سے منع کیا، انہوں نے حضرت زید کا ساتھ چھوڑ دیا؛ آپ کے ساتھ دو سو سوار باقی رہ گئے۔ تو زید بن علی نے ان سے کیا : ’’ رفضتمونی‘‘… ’’تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘تو کہنے لگے :’’ہاں۔‘‘تو ان کا یہی نام پڑگیا۔ -یعنی رافضی۔ ‘‘[2] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اسلام میں سب سے پہلے رافضہ کالفظ اس وقت معروف ہوا جب دوسری صدی ہجری کے شروع میں زید بن علی نے خروج کیا تو آپ سے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ان دونوں حضرات سے محبت و عقیدت کا اظہار کیا، تو لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا، یہیں سے ان کا نام رافضہ پڑگیا۔ ‘‘[3] نیز فرماتے ہیں : ’’ زید کے خروج کے زمانہ میں شیعہ رافضہ اور زیدیہ میں تقسیم ہوگئے؛ اس لیے کہ جب آپ سے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ان کے لیے رحم کی دعا کی تو لوگ ان کا ساتھ چھوڑ گئے، آپ نے فرمایا : ’’ رفضتمونی‘‘…’’تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘ ان کے حضرت زید بن علی کا ساتھ چھوڑ دینے کی وجہ سے ان کا نام رافضی پڑگیا۔ اور جن لوگوں نے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا انہیں زیدیہ کہا جانے لگا۔‘‘[4] اس نام پر رافضیوں کا موقف : رافضی اس نام کی وجہ سے دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ ’’رافضہ ‘‘ مذموم صفت ہے اور ان کا یہ نام ان کے مخالفین اور دشمنوں نے رکھا ہے۔ سماعۃ بن مہران کہتے ہیں : صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:’’ لوگوں میں سب سے برے کون ہیں ؟ میں نے کہا : ہم ہیں، اس لیے کہ لوگ ہمیں کفار اور رافضی کہتے ہیں۔ تو انہوں نے میری جانب دیکھا، اور فرمایا: ’’ اس وقت کیا عالم ہوگا جب تم لوگوں کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا، اور انہیں جہنم کی طرف ؛ وہ تم لوگوں کو دیکھیں گے اور کہیں گے : ﴿وَقَالُوْامَالَنَا لَانَرٰی رِجَالًا کُنَّا نَعُدُّ ھُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ ﴾ (ص: ۶۲)
[1] ابو الحسن علی الہادی بن محمد الجواد بن علی الرضا ؛ حسن عسکری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امامیہ کے ہاں بارہ اماموں میں سے ایک ہیں۔ تیرہ رجب اتوار کے دن؛ ۲۱۳ اور کہا گیا ہے کہ ۲۱۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ اور پیر کے روز ۲۵ جمادی الآخر ۲۵۴ ہجری میں انتقال ہوا۔ دیکھو: ابن خلکان : وفیات الأعیان ۳/ ۴۲۴-۴۲۵۔ ٭ شیعہ لوگ سرکش اور طاغوت سے مراد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو لیتے ہیں ، نعوذ باللہ من ذلک۔ [2] محمد آل ِعصفور الدرازی البحرانی :المحاسن النفسانیۃ في مسائل الخراسانیہ ص ۱۴۵۔ [3] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ زید بن علی نے ہشام کی خلافت کے آخری دور میں ۱۲۱ یا۱۲۲ ہجری میں خروج کیا تھا۔‘‘ منہاج السنۃ ۱/ ۳۵؛تحقیق رشاد سالم۔