کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 69
۶۔ توہروث(طہارت ): اس میں طہارت اور نجاست کے قوانین سے متعلق بحث کی گئی ہے۔ یہ بھی گیارہ رسائل پر مشتمل ہے۔ان رسائل کی مجموعی تعداد ۶۳ ہے؛ جو چو بیس فصول پر مشتمل ہے۔[1] یہود کے ہاں تلمود کی تقدیس : دنیا کے ہر کونے کے یہودی تلمود کی تعلیمات کے ساتھ متمسک ہیں۔ اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب تصور کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تورات مدون شدہ حالت میں جبل طور پر موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی تھی ؛ تلمودبھی اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کی ہے، مگر زبانی[غیر مدون حالت میں ]۔ یہود اسی پر اکتفا نہیں کرتے ؛ بلکہ تلمود کو تورات سے بڑھ کر مقام دیتے ہیں۔ تلمود میں ہے : ’’ جس نے تورات پڑھی اس نے فضیلت کا کام کیا، مگر اس پر بدلے کا مستحق نہیں ہے۔ اور جس نے مشناۃ پڑھی، اس نے فضیلت والا کام کیا، اور اس پر بدلے کا مستحق بھی ہے۔ اور جس نے جماراپڑھی اس نے بہت بڑی فضیلت کا کام کیا۔‘‘ اور اس میں یہ بھی ہے : ’’ جو کوئی حاخامات کے اقوال کو حقیر جانے وہ موت کا مستحق ہے۔ یہ اس کے سوا ہے جو کوئی تورات کے اقوال کو حقیر جانے۔ اور اس انسان کے لیے کو ئی نجات نہیں ہے جو تلمود کی تعلیمات کو ترک کردے؛ اور تورات میں مشغول ہوجائے۔ اس لیے کہ تلمود کے علماء کے اقوال اس شریعت سے افضل ہیں جوموسیٰ علیہ السلام لے کر آئے ہیں۔‘‘ تلمود کا ایک’’بشائی ‘‘نامی عالم کہتا ہے : جوانسان جمارا چھوڑ کر تورات اورمشناۃ کی تدریس میں مشغول رہتا ہے، اس کے ساتھ میل جول رکھنا جائز نہیں ہے۔‘‘ نیز تلمود میں ہے : ’’ بے شک تورات پانی سے مشابہ ہے ؛ اور مشناۃ کی مشابہت نبیذ سے ہے، اور جمارا کی مشابہت خوشبودار نبیذ سے ہے۔‘‘[2] سو یہود کے ہاں تلمود کی یہ منزلت اور درجہ ہے۔ وہ اسے مقدس کتاب شمار کرتے ہیں، اور یہ کہ تلمود تورات سے افضل ہے۔ یہ سب اس لیے کرتے ہیں کہ تلمود انہیں اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ یہود اللہ تعالیٰ کی منتخب کردہ پیاری اور چہیتی قوم ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور اس کے بیٹے ہیں۔ اور ان کا عنصر اللہ تعالیٰ کا عنصر ہے، یہودیوں کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں، تلمود کا ان کے بارے میں تصور یہ ہے کہ وہ لوگ انسانی حیوانات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ انسانی صورت اس لیے عطا کی ہے تاکہ وہ یہود کی خدمت کریں۔ اس وجہ سے تلمود ان کے علاوہ باقی لوگوں کو دھوکا دینے اور ان کی چوری کرنے کو مباح قراردیتی ہے، اوراس فعل کو تلمود میں ’’اممیین‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جب تلمود میں اس طرح کی فاسدمبادیات ہیں، تو اس بات میں کوئی تعجب یا اچھوتا پن نہیں ہے کہ یہود اس کی تقدیس کریں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں اسے اپنے لیے منہج بنالیں۔ اس لیے کہ یہودیوں کی طبیعت میں اس طرح کی فاسد مبادیات ہی ہیں۔ ان کا ایک حاخام کہتا ہے : ’’ یہودی تلمود کے سبب سے باقی ہیں، جب کہ تلمود یہودیوں میں باقی ہے۔ ‘‘[3] ****
[1] ا ٓئی۔ بی۔ برانایٹس : فضح التلمود ص۲۶ -۲۷۔ د/ صابر طعیمہ :الأسفار المقدسۃ قبل الإسلام ص ۴۳-۴۴؛ احمد عبد الغفور عطار : الیہودیۃ والصہیونیۃ ص ۱۰۷۔ [2] د/ روھلنگ : الکنز المرصود فی قواعد التلمود ص ۴۴-۴۵۔ [3] التلمود شریعۃ بنی اسرائیل : ص ۱۲۔