کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 67
وہ اسفار جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں ؛ وہ حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے ایک لمبے عرصہ کے بعد لکھے گئے ہیں۔ اور موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ راجح قول کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تیرہ سو، یا چودہ سو سال پہلے کا ہے۔ جب کہ سفر خروج اور سفر تکوین کا اکثر حصہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے نوسو سال پہلے لکھا گیا ہے۔
سفر تثنیہ میلاد مسیح سے ساتویں صدی قبل کے آخر میں لکھا گیا ہے۔ اور سفر عدد اور سفر اللاویین چوتھی اور پانچویں صدی قبل میلاد میں لکھے گئے ہیں۔
ان جدید تحقیقات کی روشنی میں محققین اس بات کوترجیح دیتے ہیں کہ عہد ِ قدیم کے باقی اسفار کی دوسری قسم کا زمانہ تصنیف نویں صدی قبل میلاد کے نصف ِ آخر سے چھٹی صدی قبل میلاد تک ہے۔ یہ قسم ان اسفار پر مشتمل ہے :
یوشع ؛ القضاۃ ؛ صموئیل ؛ الملوک ؛ الأمثال ؛ الأناشید ؛ اسفار انبیاء کا اکثر حصہ۔
جب کہ ان اسفار کی دوسری قسم کا زمانۂ تالیف چھٹی صدی قبل ہجری سے لے کر چوتھی صدی قبل ہجری تک ہے۔یہ مندرجہ ذیل اسفار پر مشتمل ہے : یونان، زکریا ؛ اور کچھ سفر دانیال میں سے بھی اس میں شامل ہے۔[1]
ثانیاً : تلمود :
تلمود کا لفظ ’’ لامود ‘‘ سے نکالا گیا ہے۔جس کے معنی ہیں ’’تعلیم‘‘ تلمود سے مراد ہے : دینی تعلیمات اور یہودیوں کے ہاں آداب کی کتاب۔[2]
یہ دو اہم اجزاء پر مشتمل ہے :مشناۃ اور جمارا:
مشناۃ:
یہ اصلی متن ہے۔ اور اس کی تالیف کا زمانہ ۱۹۰ -۲۰۰ م کا ہے ؛ جب حاخام ’’ یہوذا ہاناسی ‘‘ (جسے مقدس حاخام کہا جاتا ہے )نے تعلیمات اوریہودی تاریخ کی مبدیات جمع کیں۔[3]
جسے اس نے فرقہ ’’فریسیین ‘‘ کی طرف منسوب کیا ہے۔اور اس کا نام اس نے ’’مشناۃ ‘‘ رکھا، جس کا عبرانی زبان میں معنی ہے : ’’معرفت اور قانون۔‘‘ [4]
جمارا:
جمارا ’’مشناۃ ‘‘ کی شرح ہے۔ (یہ دو شرحیں ہیں ):
[1] د/ علی عبدالواحد وافی : الأسفار المقدسۃ ص ۱۳۔
[2] آئی۔ بی۔ برانایٹس : فضح تلمود ص ۲۱۔
[3] یہوذا ہاناسی حاخام مقدس ؛ (اسے شہزادہ بھی کہا جاتا ہے )؛ یہودیوں کا سب سے بڑا عالم تھا۔ اس نے ۱۹۰- ۲۰۰ م میں ’’مشناۃ ‘‘ جمع کی۔ دیکھو: ظفر الإسلام خان : التلمود تاریخہ وتعلیمہ ص : ۹۸۔
[4] دیکھو: ظفر الإسلام خان : التلمود تاریخہ وتعلیمہ ص : ۹۸۔ محمد صبری : التلمود شریعۃ بنی اسرائیل ص ۸۔