کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 64
ارتکاب حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا تھا۔ پھر آپ کی زندگی اور اولاد؛ حضرت نوح علیہ السلام کا طوفان، اور اس کے بعد قوموں کی پیدائش ؛ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل کے قصوں پر مشتمل ہے، جو آخر میں حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ پر ختم ہوتا ہے۔ سِفر الخروج اس کا نام ’’سفر خروج ‘‘ اس لیے ہے کہ یہ بنی اسرئیل کے مصر سے نکالے جانے کے قصہ پر مشتمل ہے۔ اس سفرمیں حضرت یوسف علیہ السلام سے بعد کے قصے ہیں۔ اور ان مشکلات کا ذکر ہے جو فرعونیوں کی طرف سے پیش آئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ظہور اور ان کے ساتھ مصر سے خروج کا بیان ہے۔ اس میں ان دس وصیتوں کا بھی بیان ہے جن کے بارے میں ان کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کوکی تھیں۔ سِفر العدد اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں بنی اسرائیل کی اولاد اور وادیٔ سیناء کے صحراء میں ان (کے بھٹکنے ) کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ سِفر التثنیہ اس کا معنی ہے دہرانا اور تکرار کرناتاکہ تعلیم اور تشریعات پختہ ہوجائیں۔ ان میں ان دس وصیّتوں کو دوبارہ سے پیش کیا گیا ہے۔ اور ایسے ہی اس میں کھانوں کے بارے میں، اور قضاء کے نظام اور بنی اسرائیل کی حکومت کے بارے میں کلام دہرایا گیاہے۔ اور اس میں یوشع بن نون علیہ السلام کے حضر ت موسیٰ علیہ السلام کے بعد خلیفہ ہونے کا بھی ذکر ہے۔ اس سفر کا خاتمہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کی خبر پر خاتمہ ہوتا ہے۔‘‘[1] سِفر یشوع یہودیوں کے ہاں تورات کے بعد اس سفر کی منزلت دوسرے درجہ کی ہے۔ اس سفر کو حضرت یوشع بن نون علیہ السلام ( جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خادم تھے، اور ان کے بعد ان کے خلیفہ بنے ) کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔اس میں حضرت یشوع علیہ السلام کی فلسطین کے ساتھ جنگ ؛ اور ان پر کامیابی حاصل کرنے کا ذکر ہے۔ اور فتح کردہ شہروں کے نظم و نسق اور ان کے بنی اسرائیل کے اسباط میں تقسیم کیے جانے کا بیان ہے۔اس کے آخر میں حضرت یوشع علیہ السلام کی موت اور ان کے دفن ہونے کی خبرہے۔ سِفر القضاۃ اس سفر کی منزلت یہودیوں کے ہاں تیسرے درجہ پر ہے۔ جس میں بنی اسرائیل کے قاضی صاحبان کابیان ہے۔
[1] د/ علی عبدالواحد وافی : الأسفار المقدسۃ ص ۱۳۔د / احمد شلبی : الیہودیۃ : ص ۲۳۳ - ۲۳۴۔