کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 624
’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَائَ o تُؤْتِیْ أُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ﴾ (ابراہیم:۲۴۔۲۵)
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے؛ جیسے پاکیزہ درخت؛ جس کی جڑ مضبوط زمین میں ثابت ہو اور شاخیں آسمان میں۔ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا (اور میوے) دیتا ہو اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔‘‘
انہی پاکیزہ درختوں میں سے؛ جن کے فائدہ مند ثمرات اور خوشبو دار پھول؛ اور مرغوب غذا؛ اور خوش ذائقہ مشروب ہمیشہ رہا؛ ایک عالم ربانی حجۃ الاسلام شیخ محمد حسین المشہور آغا بزرگ تہرانی ہیں ؛ اللہ تعالیٰ ا ن کی مدد کرے؛ صاحب کتاب : ’’ الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ‘‘؛ جو اس گروہ کی کتب کے بارے میں ایک بہت بڑا موسوعہ ہے۔ جس میں محاسن اور عیوب ذکر کیے ہیں۔ اس مبارک درخت کے ثمرات اور نتائج میں سے ایک یہ جلیل کتاب ہے جس میں تین صدیوں سے زیادہ کے علماء کے حالات زندگی لکھے گئے ہیں۔ [1]
۸۰۔ البیان في تفسیر القرآن؛ تألیف أبي القاسم الموسوي الخوئي المولود ۱۳۱۷ ھجریۃ۔
آغا بزرگ طہرانی [مصنف کے متعلق ]کہتاہے:
’’سید ابو القاسم بن سید علی اکبر بن میرزاہاشم الموسوی الخوئی، النجفی، عصر حاصر میں نجف میں لوگوں کا ایک مرجع ہے۔ آذر بائیجان کے شہر ’’خو‘‘ میں نصف رجب؛ ۱۳۱۷ ہجری کو پیدا ہوا۔ اپنے والد کے ہاں اچھی تربیت پائی۔ ۱۳۳۰ ہجری اس کے والد اسے نجف اشرف کی طرف ہجرت کر گئے۔ اور اسے تعلیم حاصل کرنے پر لگا دیا۔ یہ اس وقت سے ہی اپنی ذہانت اور استعداد کی وجہ سے ممتاز تھا۔ تعلیم کے پہلے مراحل اور مقدمات مکمل کیے، اور اپنے زمانے کے اساتذہ کے پاس حاضری دی۔‘‘
’’اسے تفسیر و تالیف میں بڑی مہارت تھی ؛ اس کی کتابوں میں سے:’’ نفحات الإعجاز ‘‘ بھی ہے۔‘‘[2]
۸۱۔ الشیعۃ الإمامیۃ تألیف محمد صادق الصدر المولود ۱۳۲۰ ھجریۃ۔
آغا بزرگ طہرانی [مصنف کے متعلق ]کہتاہے:
[1] نقباء البشر في القرن الرابع عشر ۳/ ۱۰۸۰؛ ۱۰۸۳ ؛ ۱۰۸۶۔
[2] نقباء البشر في القرن الرابع عشر۲/ ۷۷۲-۷۷۳۔